انتہائی معذرت کے ساتھ قارئین پیپروں کی وجہ سے کالم نہیں لکھ سکا اور آپ انتظار میں تھے۔جناب قارئین آج میں ایک ایسا مضمون لکھنے جا رہا ہوں جو ہمارے معاشرے اور ہمارے لیے ایک المیہ بن چکا ہے۔



جناب قارئین آ پ میں سے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں اور پھر اس کا صلہ کچھ تو اچھے طریقے سے دیتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو بھلائی کو بھلائی جانتے ہیں مگر ان کے ساتھ معاشرے میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی کم ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے بھلائی کو بھلائی جانتے ہی نہیں۔ بالکل ایسا ہی آج کل ہمارے معاشرے میں چل رہا ہے جس کے ساتھ آپ نے بھلائی کی اس کے شر کے بارے میں اپنے ذہن میں لکھ لیں کہ وہ آ پ سے کبھی بھی کسی بھی وقت آپ کو شرضرور پہنچائے گا۔ اسی پر حضرت علیؓ کا قول مجھے یاد آرہا ہے کہ آپؓ نے فرمایا ”جس کے ساتھ بھلائی کرو اس کے شر سے بچو“  پہلے تو میں بھی کہتا تھا کہ یہ سب قول سچے توہیں مگرسمجھ نہیں پاتا تھا جب انسان ٹھوکر کھاتا ہے تو سب   کچھ سمجھ جاتا ہے پھر اسے سب قول بھی سچے لگتے ہیں اور محتاط بھی ہو جاتا ہے۔
اسی طرح آجکل کے دوست ہیں جس کے ساتھ جتنی بھی بھلائی کر لو آخر وہ اپنی اصلیت دکھا دیتا ہے کہ وہ کتنا ظرف رکھتا ہے۔اگر کم ظرف ہوگا تو بھلائی کا بدلہ اپنی کم ظرفی سے دیگا اگر تووہ اپنا ضمیر زندہ رکھتا ہے تو بھلائی کا بدلہ چکانے میں اپنی جان بھی دینے سے گریز نہیں کریگا یقینا وہ اونچے ظرف کا مالک ہی ہو گا۔ ہماری قوم کیلیئے یہ ایک المیہ ہے کہ ہم بھلائی کا بدلہ بھلائی سے نہیں بلکہ برائی سے دیتے ہیں کیونکہ ہمارے اندر کا ضمیر مر چکا ہے ہم احساس کمتری کا شکار ہو چکے ہیں ہم دوسروں کو پریشان کرکے خود پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ ان سب گناہوں پر ہم فخر محسوس کرتے ہیں یہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان کا دل گناہوں سے بھر جاتا ہے اور اسے اپنا کوئی گناہ گناہ  لگتا ہی نہیں۔ اور اللہ تعالی بھی اسے ڈھیل دیتا ہے  شاید کہ را ہ راست پر آ جائے۔  
حالانکہ بھلائی کرنے والوں کے بارے میں آتا ہے کہ بھلائی کرنے والے کے ساتھ اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔ آج کل جس بھی انسان کا ظرف ناپنا ہو تو اس کے ساتھ بھلائی کر کے اس کا ظرف جانچ سکتے ہو۔ اور یہ بھی بات ہے کہ جو لوگ دوسروں کو پریشان کرتے ہیں وہ کبھی خود خوش نہیں رہ سکتے۔ ہم نے بھلائی کو مذاق بنا رکھا ہے  حالانکہ بھلائی کرنے والے کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے اس کو اس کا اچھا صلہ دینا چاہیئے مگر قارئین افسوس ہم ان کو مذاق اڑاتے ہیں ان کو برا بھلا کہتے. ان کو بھلائی کا صلہ دوکھے سے دیتے ہیں۔  ان کی برائی کے بارے میں ہم کوئی کسر نہیں چھوڑتے
قارئین یہ سب باتیں ہمارے لیے المیہ ہیں۔ اگر ہم مغرب کی طرف نظر دہرائیں تو وہاں اگر کسی کتے کو چوٹ لگ جائے تو ان کی دوڑیں لگ جاتی ہیں اگر کسی بندر کو کچھ ہو جائے تو وہ اپنی جان کی بازی لگا دیتے ہیں مگر اس کے برعکس اگر پاکستان پر نظر دہرائیں تو ایکسیڈنٹ کی وجہ سے  اگرکوئی مر رہاہے تو اسے اٹھانے کیلیئے کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ قارئین!آپ خود فیصلہ کریں مغرب میں حیوانات کی اتنی قدر ہے مگر ہمارے ہاں انسانوں کی قدر نہیں۔ یہ ہمارا المیہ ہے۔ ہم سب کو اس بھلائی کی قدر کو پہچاننے کے کوشش کرنی چاہیئے بھلائی کا بدلہ بھلائی سے دینا چاہیئے نہ کہ برائی یا شر سے۔ جو حضرات کالم پڑھ کر اپنی قیمتی رائے کا اظہار کرتے ہیں ان کا بے حد شکریہ  
   کالم نگار خدا بخش میرانی