جھوٹ‘‘ بظاہر ایک حرفی چھوٹا سا لفظ ہے لیکن معنوی اعتبار سے ’’جھوٹ‘‘ کے اس لفظ کو ’’دنیا کے کسی بھی معاشرے میں پذیرائی حاصل نہیں۔‘‘ یورپی معاشرے میں تو جھوٹ بولنے والے کو انتہائی مطعون قرار دیا گیا ہے۔ اس معاشرے میں سچ بولنے کو انتہائی عزت و توقیر حاصل ہے۔ 


بدقسمتی سے جو ہمیں کرنا چاہیے تھا وہ اب یورپ کر رہا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک مرتبہ ایک شخض حاضر ہوا اور کہا ’’اللہ کے پیارے نبیﷺ! اگرچہ مجھ میں بہت سی برائیاں ہیں۔ بہت سے گناہ کرتا ہوں، کوئی ایسی بات بتائیے کہ سارے گناہ چھوڑ دوں۔ آپﷺ نے فرمایا ’’تم جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔‘‘ اس شخص نے حضورؐ کی بات پر عمل کیا۔ شراب پینے لگا تو خیال آیا کہ حضورﷺ کی مجلس میں اس بابت سوال کیا گیا تو کیسے جھوٹ بولوں گا۔ کیونکہ میں نے سچ بولنے کی قسم کھائی ہے۔ سچ بولوں گا تو شرمندگی ہو گی۔ لہٰذا اُس نے شراب پینا چھوڑ دی۔ اسی طرح ایک ایک کر کے باقی برائیوں سے بھی اُس کی جان چھوٹ گئی اور وہ سچا و پکا مسلمان بن گیا۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ جھوٹ ہی ہے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے۔

اس لیے ہمیں جھوٹ سے بچنا چاہیے۔ جھوٹ وقتی طور پر تو آپ کو کوئی فائدہ دے سکتا ہے۔ لیکن بالآخر اس کا نتیجہ شرمندگی ہی ہے۔ کاروبار ہو یا سیاست کا میدان۔ غرض ہمارے ہاں زندگی کے ہر شعبہ میں نہ صرف کثرت سے جھوٹ بولا جاتا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے جھوٹ کو اپنی زندگی کا جزو لاینفک بنا لیا ہے۔باتوں کو چھپانا اور اپنی چھوٹی سی کسی غرض یا مفاد کے لیے جھوٹ پہ جھوٹ بولنا ہمارا وطیرہ بن گیا ہے۔ جو قابل افسوس ہی نہیں، قابل شرم بھی ہے۔ جہاں ہم اپنی زندگی میں نبی کریم ﷺ کے بہت سے فرمودات بھولے ہوئے ہیں وہاں ہم اس فرمان کی بھی روز نفی کرتی ہیں۔ جو جھوٹ سے متعلق ہے۔ ضیاء الحق مرحوم کے نزدیک بھی ’’جھوٹ‘‘ ایک کبیرہ گناہ تھا۔ شاید اِسی لیے انھوں نے آرٹیکل 62اور 63کو آئین کا حصہ بنایا اور قرار دیا کہ اسمبلی کے اراکین کو صاد ق اور امین ہونا چاہیے۔ لیکن، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ صرف اراکین اسمبلی ہی کیوں، دیگر شعبوں کے افراد کو بھی اس کلیہ پر پورا اترنا چاہیے۔شاعر نے کیا ہی خوب لکھی کہ:                                                             جومیں سچ کہوں تو برا لگے جو دلیل دوں تو زلیل ہوں                                                                                                                           سماج جہل کی زد میں ہے جہاں بات کرنا فضول ہے. 

عام رائے ہے کہ عدالتوں میں جب تک جھوٹ نہیں بولا جائے گا انصاف نہیں ملے گا۔ جس کے لیے وکیل، ملزم، مدعی فریق اور اُن کے گواہان پوری تیاری کر کے آتے ہیں۔ تھانوں میں بھی درج ستر فیصد مقدمات جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں۔ جو سچے وقوعہ جات پر مبنی ایف آئی آر درج ہوتی ہیں اُن میں بھی دس سے بیس فیصد جھوٹ شامل کر دیا جاتا ہے۔ مقصد یہی ہوتا ہے کہ جھوٹ شامل کر کے سنگین دفعات کا اضافہ کر دیا جائے تاکہ ملزم یا ملزمان کی ’’بیل‘‘ نہ ہو سکے اور تھانے والوں کا پرموشن پکا ہو جاۓ مگر بعد ازاں جب عدالت میں کیس کا ٹرائل شروع ہوتا ہے تو مدعی کا جھوٹ اس کے اپنے گلے پڑ جاتا ہے اور ملزمان گناہ گار ہونے کے باوجود ’’شک‘‘ کا فائدہ اٹھا کر بری ہو جاتے ہیں.جھوٹ صرف عدالتوں میں ہی نہیں، گھروں، دفتروں، پنچائتوں اور رشتے کراتے وقت بھی بولا جاتا ہے۔ میں ذاتی طور پر دو ہفتے قبل ایک مسئلے سے دوچار ہوا۔جس میں سارا جھوٹ ہی جھوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.لوگ جھوٹ بول کر اپنا کام نکلوانا اور فائدہ خاص کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

شاید ہم سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بول کر کہیں بھی کوئی سا بھی فائدہ اٹھا لیں گے۔ سچ بولیں گے تو شاید وہ فائدہ حاصل نہ ہو۔ لیکن یہ ہمارا وہم اور خیال ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں سمجھ جانا چاہیے کہ جھوٹ میں سراسر نقصان ہے۔ جھوٹ بول کر انسان اپنا اعتماد اور عزت کھو دیتا ہے۔ سچ بول کر شاید وقتی طور پر ضرور کچھ نقصان ہو لیکن اس کا دیرپا فائدہ ہوتا ہے جو ہمیں آگے چل کر معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں ہر حال میں سچ بولنا چاہیے۔جھوٹ پر فقیر نے ایک بات لکھی وہ کچھ یوں ہے کہ"کبھی کسی ایک کی غلطی سے بہت سے لوگوں کا فائدہ ہو جاتا ہے اور کبھی کسی ایک کی غلطی کی سزا بہت سے لوگوں پر تقسیم ہو جاتی ہے. !

اس تحریر کا اختتام میں دور حاضر کے حالات کی عکاسی کرتے ہوۓ اپنے اس شعر پر کرتا ہوں. 
دوپہر تک بک گیا شہر کا سارا جھوٹ
اور میں سچ لیے شام تک بیٹھا رہا

  کالم نگار خدا بخش میرانی