سلطان راہی ایک فلم میں آدھی رات کو عدالت کی دیوار پھلانگتے ہوئے پکڑا جاتا ہے۔۔وجہ پوچھی تو کہنے لگا انصاف لینا آیا ہوں ،اسے بتایا گیا کہ عدالت تو دن کے وقت لگتی ہے ۔

 

سلطان راہی نے وہاں جو ڈائیلاگ بولا دل کو چھو گیا ”ظلم تو چوبیس گھنٹے ہوتا ہے اور انصاف صرف دن کو ملتا ہے یہ کہاں کا قانون ہے“ وردی میں بڑی طاقت ہے وہ تحصیل تونسہ ٹی ایچ کیو ہسپتال کے گیٹ نمبر 1 کا سیکورٹی گارڈ پہنے یا پھر پنجاب کی بہترین محافظ فورس ڈولفن کا جوان پہنے یہ اتنی طاقت ور ہے کہ اس کے سامنے عام انسانوں بالخصوص غریبوں کی حیثیت کیڑوں مکوڑوں سے زیادہ نہ ہے ۔غریب سے بڑا کوئی اجڈ،بدتمیز نہیں ہوتا کیونکہ وہ غریب ہوتا ہے 
سچ بات تو یہ ہے کہ یہ ملک کبھی بھی غریبوں کا تھا ہی نہیں بلکہ وڈیروں ،سرمایہ داروں،بااثر افراد کی ذاتی جاگیرتھی جاگیر ہے اور جاگیر رہے گی۔جس ملک میں امیروں کے لیے قانون کچھ ہو اور غریبوں کے کچھ ہو وہاں بے بسوں ،لاچاروں کے حقوق کا محافظ کون ہو سکتا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں یہ امراءشہر پہلے غریبوں سے اناج چھینتے ہیں پھر انکے آگے روٹی پھینک کر انکے مسیحا بن جاتے ہیں یہ لوگ معاشرہ کا سب سے بڑا ناسور ہیں ۔آج ایک چپڑاسی سے لیکر ایک مسجد کا مولوی اور پھر اقتدار کی اعلیٰ کرسی تک سب بکتا ہے سب کی بولیاں لگتی ہیں ۔ایک چپڑاسی پانچ سو روپے میں وہ کام کرواسکتا ہے جو ایک پڑھا لکھا عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا یہاں چند ٹکوں کے خاطر ملاں کے فتوﺅں میں روز شریعت کا کاروبار ہوتا ہے ،یہاں ایک ڈاکو، چور ،زانی ،شرابی کو بچانے کے لیے قانون دان دلیلوں کے انبار لگا دیتے ہیں ۔یہاں ملک چوروں ،غداروں کو ہار ڈالے جاتے ہیں اور قوم کے معماروں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ،یہاں نبی سے عشق کے دعویدار اپنی ذاتی تشہیر کی خاطر سینکڑوں دیگیں چڑھا دیتے ہیں .
مگر نبی کی سنت پر عمل کرکے ایک غریب ،بیمار ،بھوکے ہمسائے کو ایک وقت کی روٹی نہیں کھلا سکتے ۔جب کہ حد یث مبارکہ ہے ۔حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول مقبول نے ارشاد فرمایا ”بھوکے مسلمان کو کھانا کھلانا مغفرت کو واجب کرنے والے اعمال میں سے ہے “یہاں ایک ایم پی اے ،ایم این اے پارٹی ٹکٹ کے حصول کے لیے کروڑوں روپے دیتا ہے پھر جن غریبوں کے ووٹ سے کامیاب ہوتا ہے ۔ کسی ایک غریب بیٹی کے سر پر چادر نہیں دے سکتا ۔سوچنے والی بات ہے کیا یہ وہ پاکستان ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور جس کی تعبیر کے لیے قائد اعظم ؒ نے انتھک محنت کی،کئی ماﺅں نے اپنے لختائے جگروں کو قربان کردیا ،کئی سہاگنوں نے اپنے سہاگ اس پاک خطے کے حصول پر قربان کر دئیے ،ہزاروں بہنوں ،بیٹیوں کی عزتیں تار تار ہوئیں تب جاکر یہ پاکستان بنا ۔ہائے افسوس یہ میرا وطن!ہندوﺅں، سکھوں،اور فرنگیوں کی قید سے آزاد ہوکر وڈیروں،جاگیرداروں،سرمایہ داروں کے ہاتھ آگیا ۔المیہ یہ ہے یہاں چور کی گواہی چور دیتا ہے ۔وطن عزیز کی جیلوں میں جاکر دیکھیں کہ ستر فیصد لوگ بے گناہ جن کا سب سے بڑا گنا ہ غربت ہے، روٹی کے چور قید ہیں ۔یہاں لوگ انصاف کے حصول کے لیے عدالتوں کی سیڑھیاں چڑھتے اترتے لقمہ اجل بن جاتے ہیں مگر انصاف نہیں ملتا ۔انصاف میں تاخیر بے انصافی کو جنم دیتی ہے ۔پاکستان میں کئی ایسے خاندان بھی ہیں جو عدالتوں میں گذشتہ ستر سالوں سے پیشیاں بھگت رہے ہیں جبکہ مقدمات کی پیروی کرتے کرتے انکی نسلیں ختم ہوگئیں لیکن تاحال فیصلہ نہیں ہوسکا ۔۔۔۔آخر میں ان وڈیروں، جاگیرداروں سے بس  اتنا ہی کہنا ہے کہ آپ خدارا خدا مت بنا کریں ۔۔۔ایک خدا ہزاروں سالوں سے مصر کے عجائب گھر میں خدا سے سرکشی کی وجہ سے عبرت کا نشان بنا ہوا ہے”بے شک اللہ تمام جہانوں کا بادشاہ اور سلطان ہے“ اللہ پاک ہم سب پر اپنا خصوصی کرم فرمائے اور ہم کو غریبوں کا ساتھ دینے کی تو فیق عطا فرمائے۔آمین۔
کالم نگارخدا بخش میرانی