مشہور امریکی مفکر جان ڈیوی کے قول کے مطابق معاشرے میں خرابی اور فساد اس وقت ہوتا ہے جب ایک فرد دوسرے افراد کے حقوق اور جذبات کا خیال نہیں رکھتا اور ہر فرد اپنے ہی مفادات حاصل کرنے میں مگن رہتا ہے.
اگر اس وقت کے پاکستانی معاشرے اور ملکی صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے ملکی, قومی, اجتماعی, انفرادی سطح پر معاشرتی اصولوں اور معروف انسانی قدروں کو یکسر فراموش کر رکھا ہے. چاہے معاشرے کے نچلے طبقات کو دیکھیں یا اونچے ایوانوں میں بسنے والے رؤسا اور حکمرانوں کو پرکھیں نیچے سے اوپر تک اور اوپر سے نیچے تک ہر طرف معاشرہ بدنظمی, انتشار, باہمی نفرتوں, مفاد پرستی, اور ذاتی لالچ کا شکار دکھائی دیتا ہے. دولت کا حصول اور جاہ و جلال زندگی کا مقصد بن چکا ہے. اخلاقی اور انسانی قدریں اب ایک قصہ بن کر رہ گئی ہیں. اگر کوئی ایمانداری اور شرافت کی بات کرے تو یک دم سبھی لوگ اس کی طرف شکی نگاہوں سے دیکھتے ہیں گویا کہ وہ مافوق الفطرت یا غیر انسانی کام سر انجام دے رہا ہو. حالانکہ معاشرتی قدروں کا تقاضا یہ ہے کہ برے کام کرنے والے کو اسطرح دیکھا جائے مگر معاشرے کے مجموعی بگاڑ کی صورت میں معاملہ الٹ ہو کر رہ گیا ہے. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے ملک میں ایسا کیوں ہے جسکی بنیاد میں یہ بات شامل رہی کہ یہاں انسانی اور معاشرتی قدریں فروغ پائیں گی. انصاف اور انسانیت کا بول بالا ہو گا اور سب انسان برابر سمجھے جائیں گے. ان سب کا ذمہ دار کس کو ٹھرایا جائے؟؟ یہ آپ نے اپنی رائے دینی ہے. میرے ناقص عقل نے اسکا یہ جواب دیا کہ ان سب کی وجہ چھوٹے طبقے والے افراد تو ہیں ہی ان سے زیادہ حکمران بھی ہیں.
اس کے بعد ہماری موجودہ حالت کے ذمہ دار وہ مزہبی سیاسی, تعلیمی اور حکومتی ادارے ہیں جنہوں نے اس ملک کی جمہوریت کو فروغ نہیں پانے دیا لیکن یہاں بنیادی کردار اس طبقے کا ہے جو ایک کونے میں بیٹھ کر خود تو تماشا دیکھتا ہے اور ساتھ ہی وہ بات سوچتا ہے اور کرتا ہے جس سے اس کا اپنا فائدہ ہو لہذا اس طبقے کی عنایات نے یہاں جمہوریت کو آگے بڑھنے ہی نہیں دیا کیونکہ جمہوریت کے تسلسل اور لگاتار عمل سے معاشرے میں موجود تمام منفی قوتیں خود بخود دم توڑ جاتی ہیں اچھے اور نیک نام لوگ بتدریج حکومت کے ایوانوں میں شامل ہوتے رہتے ہیں اور اسی طرح باقاعدہ ایک جمہوری عمل کے ذریعے معاشرےکی اصلاح کا عمل جاری رہتا ہے لیکن یہاں موجودہ افسر شاہی ,ناکام سیاست دانوں, ضمیر فروشوں اور انگریزی زور کے قائم کردہ تعلیمی اداروں نے ہمیشہ جمہوری اداروں کو ناکام بنانے کے لیے اہم کردار اددا کیا. یوں معاشرہ مسلسل جبر و استبداد کا شکار رہ کر ہر کام سختی اور رعب سے کرنے کا عادی بن چکا ہے.
0 تبصرے