یوم آزادی  بس چند  دنوں تک ہماری مہمان ہوا چاہتی ہے۔ گلیوں اور بازاروں میں سٹال لگ گئے ہیں ، کہیں  اونچی آواز میں  نغمے لگائے گئے ہیں 


ویسے کتنی عجیب بات ہے کہ  ہمیں  قومی دنوں کی یاد دہانی کےلیے نغمے درکار ہوتے ہیں ۔

ہم شکر ادا کرتے ہیں کہ جسمانی لحاظ سے تو کم ازکم آزاد ہی ہیں ۔ لیکن کیا واقعی ہم آزاد ہیں ؟

ہمارے جسم کا سب سے کار آمد اور پیچیدہ پرزہ تو آج بھی غلام ہے اور شاید اگلی  نسل تک غلام ہی رہے گا ،ابھی تو شکر ہے کہ یہ نظر سے پوشیدہ ہے،اس سے لپٹی ہوئی بیڑیاں نہ تو کسی اور کو نظر آتی ہیں نہ ہمیں خود ۔ ہم کسی کٹھ پتلی کی طرح اسی غلامی میں جیے جا رہے ہیں۔

غلامی کی ان رسیوں کی  ڈور انجانی سمتوں سے کھینچی جاتی ہے اور من پسند رخ کی طرف موڑ   دی جاتی ہے ۔

ہم نے اس غلامی کو خود جلا بخشی ہے، کسی نے ہمیں اٹھا کے گھر نہیں بٹھا دیا کہ میاں تم آرام فرماؤ ،ہم ہیں ناں بل جمع کرنے کےلیے،کھانا پکانا کیوں ہے،ہم  آپ  کی بارگاہ میں حاضر ہیں،ہم سے مدد لیجیے ، من پسند کھانا آرڈر کروا لیجیے ۔

ارے کتاب چاہیے ،کیوں پیسے خرچ کرنا اور تلاش میں خوار ہونا ، آن لائن پڑھ لیجئے، یا 

کم ازکم  سافٹ فارم میں پڑھ لیجئے۔

عید ہے، جشن آزادی ہے، یا کوئی تہوار ،کپڑوں ، جوتوں کی خریداری کرنی ہے تو اس آسان کام کے لیے آپ باہر نکلنے کی توفیق کیوں کریں گے ،ابھی آرڈر کریں اور گھر بیٹھے  پسندیدہ لباس حاصل کریں۔ کچھ بھی چاہیے یا کوئی بھی کام سر انجام دینا ہو تو گھر بیٹھے ہو جاے گا ۔ آپ آرام فرمایئے اور تب تک فرماتے رہیئے جب تک موٹاپے،بلڈ پریشر یا ڈپریشن کےلئے ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت  نہ پڑے۔

ہم بحثیت قوم سہل پسند اور عیش و آرام کے دل دادہ ہیں۔

ہماری اس لت سے زمانہ واقف ہے اور اسی کو ہم پر الٹ دیا گیا  ہے۔ ٹیکنالوجی کی دنیا میں نت نئی ایجادات کی جا رہی ہیں جن کا بنیادی مقصد بظاہر تو  ترقی و خوشحالی ہے لیکن پس پردہ ہم جیسی اقوام کے دماغ تک رسائی اور کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ ویسے تو ہمارا دماغ کونسا کسی کام آنا ہے یا ہم نے کونسا کامیابی کے جھنڈے گاڑ لینے ہیں لیکن ہمیں بٹھا بٹھا کے صحیح سلامت ہوتے ہوئے جسمانی طور پر مفلوج کیا جا رہا ہے۔

ایسی شدت بھری گیمز ایجاد کی گئیں کہ بچے خودکشی کرنے لگے۔

 انٹرٹینمنٹ کے نام پر ایسی ایپس ایجادات کی گئیں جن کی وجہ سے کئی جانیں ضائع ہوئیں۔

ہمیں عیاشی کی لت لگا دی گئی ہے، ہمارے ذہن انٹرنیٹ اور اس سے ملحقہ ایجادات میں جکڑے ہوئے ہیں،ہر کام کےلیے بڑی خوشی سے ہم ان کے غلام بنے ہوئے ہیں۔۔ہمیں احساس ہی نہیں آزادی  کتنی بڑی نعمت ہے کیونکہ یہ تو  ہماری پیدائش سے ہی ہمیں میسر ہے۔

خدارا جاگ جاؤ ،اپنی ذات کی  آزادی  حاصل کرو، اپنا کام ہر ممکن حد تک خود کرو ،نکل آو غلامی کی ان بیڑیوں سے۔  تاریخ کی چند کتابیں پڑھ لو کیا انجام ہوا کاہلوں کا ۔ایک وقت تھا پورے برصغیر پر مسلمانوں کا طوطی بولتا تھا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ  آرام پسندی نے مسلمانوں کو کہاں لا کے پٹخا ۔ اتنی  کاہل پرستی اور آرام پسندی نہ تو ہم پر جائز ہے اور نہ ہمیں راس آتی  ہے۔ مکمل آزادی کےلیے ہمیں اپنی ذات سے لڑنا ہوگا۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین !