دنیا بھر کے ممالک کی طرح امریکہ افریقہ یورپ اور ایشیاء جب کرونا کی عالمی وباء کی لپیٹ میں تھے تو بیلاروس کے حکام اپنی عوام کو روزمرہ کی زندگی کے معمولات کو تبدیل نہ کرنے کی ہدایات دیتے رہے حالانکہ ایک طرف یورپ میں ہنگامی حالت نافذ تھی تمام ممالک میں سکول بند کر دئیے گئے.
بڑے بڑے اجتماعات اور سیاحت پر پابندی عائد کر کے آنے اور جانے والی تمام پروازوں کو معطل کر دیا گیا لیکن دوسری طرف بیلاروس کی سرحدیں کھلی رہیں۔لوگ اپنے کاموں پر جاتے رہے اور سراسیمگی کے عالم میں کسی نے کوئی چیز خرید کر ذخیرہ نہیں کی سینما حال اور تھیٹرز کھلے رہے پریمئر شپ کے میچز معمول کے مطابق ہوئے ۔یہ الگ بات ہے کہ کرونا سے ہونے والی تباہی کے ایام میں منسک کی سڑکوں اور گلیوں میں کم لوگ نظر آئے وہ بھی اس وجہ سے کہ لوگوں کو اس بات کا احساس تھا کہ عمر رسیدہ افراد کو اس وباء سے زیادہ خطرہ لاحق ہے لیکن لوگوں کو موذی وائرس کے بارے میں جو کچھ معلوم ہوا اس میں حکام کا بہت کم ہاتھ تھا۔
اگر دیکھا جائے تو کرونا سے بچاؤ کے لیے کئے گئے حفاظتی اقدامات اور لاک ڈاؤن سے عالمی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔ رواں برس دوسری جنگ عظیم کی فتح کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر روس کے درالحکومت ماسکو کے وسط میں نہ تو کوئی ٹینک تھے نہ ہی حاظر سروس اور سابق فوجیوں کی کوئی پریڈ کیونکہ کرونا کی وجہ سے سب کچھ منسوخ کرنا پڑا لیکن ہمسایہ ملک بیلاروس کے دارالحکومت منسک میں پریڈ ہوئی کنسرٹ اور آتش بازی بھی منصوبے کے مطابق کی گئی ۔دنیا میں سب کچھ درہم برہم ہو گیا ہے لیکن بیلاروس دنیا کا واحد ملک ہے جہاں حکومت عوام میں مقبول اقدامات کے بجائے ان کےلئے خیر کی تمنا کرتی رہی ۔بیلاروس کو 2011ء میں انتہائی افراط زر کا سامنا کرنا پڑا اور 2020ء میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف نے معیشت میں 6 فیصد گراوٹ کی پیش گوئی کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں بےروزگاری کا کوئی وجود نہیں اور روس اس ملک کی برآمدات کا سب سے اہم خریدار ثابت ہوا ہے ۔ بیلاروس اور بھ کئی اعتبار سے ایک انوکھا ملک ہے جہاں موت کی سزا کا قانون موجود ہے اور یہ عمل انتہائی خفیہ انداز میں سر انجام دیا ہے یہاں کی طاقتور خفیہ پولیس جسے آج بھی "کے جی بی" کہا جاتا ہے اختلاف رائے رکھنے والے افراد کی قریبی نگرانی کرتی ہے ۔ان میں سے زیادہ تر افراد جیلوں میں ہیں یا جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لہزا مذاق میں بھی صدر کی توہین کرنے پر جیل کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ بیلاروس کے مشرق میں روس ہے جبکہ جنوب میں یوکرین شمال اور مغرب میں یورپی یونین اور نیٹو ارکان لاٹویا لوتھیانا اور پولینڈ ہیں۔
یوکرین کی طرح 95 لاکھ آبادی کا یہ ملک بھی روس اور مغرب کے درمیان دشمنی کا باعث بنا ہوا ہے ۔ 26 برس سے اقتدار پا فائز صدر لوکاشینکو روس کے حلیف ہیں اور انہیں یورپ کے آخری آمر حکمران کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے لوکاشینکو کی پرورش مشرقی بیلاروس کے ایک گاؤں میں ان کی والدہ نے کی۔ انہوں نے 1975ء میں استاد کی حیثیت سے گریجویشن مکمل کی اور سیاسی انسٹرکٹر کی حیثیت سے 2سال تک فوجی خدمات سر انجام دیں۔بعدازاں 1979ء میں انہوں نے سوویت کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ ڈسٹنٹ لرننگ کے زریعہ تعلیم حاصل کرنے اور زرعی اور صنعتی معاشیات میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1985ء میں ایک مشترکہ فارم کے چئیرمن بنے اور بالآخر 1987ء میں ملک سے وسطی مشرق کے مہیلیو علاقے میں واقع ایک ریاستی فارم کے ڈائریکٹر بن گئے ۔
اقتدار میں لوکاشینکو کے عروج کا آغاز 1990ء میں
بیلاروس کی پارلیمنٹ کے منتخب ہونے کے بعد ہوا جہاں انہوں نے ملک میں انسداد بد عنوانی کی کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ 1991ء میں انہوں نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد والی پالیسیوں کی مخالفت کی اور معیشت کو وسیع تر ریاستی کنٹرول میں رکھنے کے ساتھ ساتھ میڈیا اور اپنے سیاسی مخالفین کی نگرانی سخت کر دی ۔ 1994
ء کے انتخابات میں انہیں ایک ایسا مقبول امیدوار سمجھا جاتا تھا جن کا اینٹی کرپشن مہم کے علاوہ کوئی واضح ایجنڈا نہیں ۔بیلاروس میں آج معیشت ریاست کے اختیار میں ہونے اور 9 اگست کو انتخابات میں 80 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے خلاف اپوزیشن دھاندلی کا الزام لگا کر سراپا احتجاج ہے اور اب دارالحکومت منسک کی سڑکوں پر احتجاجی ریلیاں نکال کر صدر لوکاشینکو ڈے دستبرداری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
لوکاشینکو کے اس الزام میں کس حد تک سچائی ہے کہ نیٹو بیلاروس کو منقسم کر کے منسک میں اپنا نیا صدر بٹھانا چاہتا ہے؟ کیا حقیقت میں پولینڈ اور لتھوینا میں موجود نیٹو افواج تیار ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے بیلاروس حکومت بھی اپنی افواج مغربی سرحد پر ہائی الرٹ کر رہی ہے؟ بیلاروس کے صدر کو جہاں یورپ کے آخری حکمران کا خطاب دے کر ان کے خلاف تحریک چلائی جا رہی ہے وہیں دیکھا جائے تو ناقص پالیسیوں اور حکمرانوں کے جارحانہ طرز عمل کی بناء پر مختلف یورپی ممالک میں بھی آزادی کے حصول کی جدوجہد جاری ہے ۔ سکاٹ لینڈ،باسک اور سپین کے خطے کاتالونیا کے باسی ایک خود مختیار ریاست چاہتے ہیں، بیلجیئم میں زبان کی بنیاد پر تنازعہ موجود ہے۔ اریٹیریا، سوڈان یا مشرقی تیمور میں چلنے والی تحریکیں بہت زیادہ خونریز ہیں اور یہ راستہ خطرات سے خالی نہیں ہے۔
0 تبصرے