کئی دہائیوں سے آرمینیا اور آذربائجان کے درمیان روایتی دشمنی چلی آ رہی ہے ۔ اس دشمنی کی بنیادی وجہ نگورنوکاراباخ نامی آرمینیائی نسلی علاقہ ہے۔ یہ علاقہ واقع تو آذربائجان میں ہے لیکن یہاں رہائش پذیر افراد کی اکثریت آرمینیائی نسل سے ہے اور یہاں کی حکومت بھی اسی نسل کے افراد کے ہاتھوں میں ہے ۔
نوے کی دہائی میں اس متنازع علاقے کے حصول کے لئے ایک بڑی خونریز جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں تیس ہزار جانیں ضائع ہوئیں۔ اس جنگ کے بعد کاراباخ نامی اس علاقے نے آذربائجان سے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا ۔ کاراباخ کے اس اہم اعلان پر آرمینیا سمیت کسی ملک نے کان نہیں دھرے۔تب سے یہ علاقہ متنازعہ چلا آ رہا ہے۔
آذربائجان میں اکثریتی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔یہ ملک سوویت یونین کے زیر انتظام رہ چکا ہے ۔ یہاں آذر اور روسی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ سوویت یونین سے آزادی کے بعد آذربائجان کو ماننے والا سب سے پہلا ملک ترکی اور دوسرا پاکستان تھا۔ جبکہ آرمینیا میں اکثریتی آبادی کا مذہب عیسائیت ہے۔ یہ بھی سوویت یونین کے زیر انتظام رہ چکا ہے۔ یہاں بھی روسی اور آرمینائی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس کو سب سے پہلے روس نے تسلیم کیا . آذربائجان کو ترکی کی کھلم کھلا حمایت حاصل ہے جبکہ آرمینیا کو روس کی حمایت حاصل ہے۔ اس خطے میں مسلمانوں اور مسیحی طاقتوں کے درمیان اکثر اوقات جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں اور جنگ بندی بھی ہو جاتی ہے تاہم اب تک کوئی فعال معاہدہ طے نہیں پایا۔ ہر بار عالمی طاقتیں امن کے قیام پر زور دیتی ہیں ۔
چند دن بیشتر دوبارہ دونوں ممالک کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں اب تک 95 جانیں قربان ہو چکی ہیں۔ان حالات میں جب دنیا عالمی وباء سے جنگ لڑ رہی ہے ترجیحات مکمل طور پر بدل ہو چکی ہیں اور انسانی زندگی اور انسانیت کو سب سے پہلا اور اہم درجہ دیا گیا ہےاور سب کا مقصد اس وقت انسانی جانوں کی حفاظت ہے ، دونوں ممالک کی طرف سے جنگی صورتحال پیدا کرنا کافی حیران کن اور شرمناک ہے۔اب تک ان جھڑپوں میں 95 سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں عام شہری بھی شامل ہیں ۔ آذربائجان کی طرف سے اپنے فوجیوں کی ہلاکت کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن وہاں کی اپوزیشن نے فوجی ہلاکتوں کے بارے میں بتایا ہے۔ دونوں ممالک کے اعلیٰ عہد دار حمایتی بیانات دے کر اپنی فوج کا خون گرما رہے ہیں۔ دونوں ممالک کی طرف سے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ بھی جاری ہے۔
علاقائی قوت ترکی نے
آذربائجان کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا اور آرمینیا کے مطابق ترکی نے اپنے جنگجو اس مقصد کے لیے آذربائجان بھیجے ہیں۔ روس آرمینیا کا حمایتی ہے اس کے باوجود کئی بار روس دونوں ممالک کو ثالثی کی پیشکش کر چکا ہے۔ تازہ صورتحال میں بھی روس کا کہنا ہے کہ اس کی ترجیح جنگ بندی ہے نہ کہ یہ جانچنا کہ کون غلط ہے اور کون ٹھیک۔ آج بروز بدھ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس حالیہ جھڑپوں پر منعقد ہوا۔ عالمی تنظیموں کا کہنا ہے کہ علاقائی قوتیں اس معاملے میں دخل اندازی نہ کریں ۔انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی جنگ بندی پر زور دے رہی ہیں
0 تبصرے