گزشتہ دنوں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود  نے وزیراعظم کے ساتھ ایک میٹنگ کے بعد پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ  میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طالب علموں کے امتحانات منسوخ کر دیے گئے ہیں اور انہیں اگلی کلاس میں پروموٹ کر دیا جائے گا

 اس اعلان کے بعد طالبعلموں نے ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا سوشل میڈیا پر اس کی کافی تائید بھی کی گئی اور تنقید بھی کی گئی جس کے بعد اگلے ہی روز وزارت تعلیم نے یہ کہا کہ گیارہ تاریخ کو ایک میٹنگ کے بعد ہی حتمی فیصلہ دیا جائے گا مگر اس سے پہلے یہ بات قابل غور ہے کہ ہے وزارت تعلیم نے یہ بیانات بھی دیے  کہ وہ طالب علم جو اپنی کارگردگی بہتر بنانے کے لیے دوبارہ امتحانات  دے رہے تھے ان کے امتحانات  لیے جائیں گے یہ یہ بیانات ایک دن بعد دیے گے ان سے یہ  تاثر نکلتا تھا کہ وزیر صاحب طالب علموں یا پھر سوشل میڈیا کی طرف سے دیے گئے دباؤ کے ماتحت کام کر رہے ہیں لیکن کہانی میں مزاح یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ گزشتہ روز صوبائی وزیر تعلیم نے کہا کہ گیارہ تاریخ کو ہونے والی میٹنگ اب  اگلے ہفتے ہوگی جس میں طلبا  کے امتحانات کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا 

موجودہ  دور حکومت میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ وزیر ایک بیان دے دیتے ہیں اور اس بیان پر  فیصلہ بعد میں کیا جاتا ہے لیکن اب امتحانات کے موجودہ صورتحال میں وزیروں کے غیر یقینی بدلتے بیانات نے طالبعلموں کو مشکل میں ڈال دیا ہے اب کوئی وزیر صاحب سے پوچھے کہ آپ نے اگر بیان دینا ہی تھا تو فیصلہ کر لیتےاب جب کہ اعلان کردیا ہے اور ابھی تک  فیصلہ نہیں کیاتو  لوگوں کے لئے ہیجان کی صورت پیدا ہوگئی ہے وزیر صاحب نے لگتا ہے کافی عجلت میں فیصلہ کیا اور اس فیصلے سے ایک مشکل میں پھنس گئے ہیں وزیراعظم عمران خان کو اپنے وزیروں  کے غیر ذمہ دارانہ رویہ پر نظر ثانی کرنی ہوگی کیونکہ جس وقت وزیر  صاحب نہیں امتحانات کی منسوخی کا اعلان کیا ان کے طرز بیان سے ایسا ہی لگا کے کچھ ہی وقت کے اندر نوٹفکیشن جاری ہوجائے گا مگر سوشل میڈیا پر تھوڑآ دباؤ ملتے ہی وزیر  صاحب نے اپنے بیانات میں تبدیلی کرنا شروع کردیں یا تو وہ کم عقل ہیں  یا پھر چیزوں کی فہم نہیں رکھتے کیوں کہ ایک وزیر کے لیے اس طرح بیان بدلنا ان کی وزارت کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے
لیکن موجودہ صورت میں اب ہم یہی امید کرتے ہیں کہ حکومت امتحانات کے متعلق جلد از جلد فیصلہ کرلے گی کیوں کہ اس وقت طالبعلموں نے پڑھنا  چھوڑ دیا ہے اگر زیادہ عرصہ پڑھائی چھوڑ کر بیٹھے رہے اور پھر حکومت نے امتحانات کا اعلان کردیا تو اس کے نتائج ان کے رزلٹ پر لاملحا  ظاہر ہونگے یہی وجہ ہے کہ ہم کہہ رہے ہیں وزیر بیان دینے سے پہلے ذرا سوچ سمجھ کر فیصلہ کر لیں تاکہ کسی کا نقصان نہ ہو اب  جب طالبعلموں کا ایک ہفتہ ضائع کرنے کے بعد اگر امتحانات کا اعلان کردیا جائے تو طلباء کا کس قدر نقصان ہوگا اس کا اندازہ اساتذہ والدین اور طالب علم خود ہی لگا سکتے ہیں سبھی وزیروں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ان کی کہی ہوئی بات کو عوام حرف آخر سمجھتی ہے کہ فیصلہ ہو چکا ہے لیکن یہاں بیان پہلے دیا جاتا ہے فیصلے بعد میں کیے جاتے ہیں جس سے عوام کا کافی زیادہ نقصان ہوتا ہے وزیراعظم عمران خان کو اپنے وزیروں کی اس روش پر نظرثانی کرنا ہوگی