قائد اعظم رحمت اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ 
مسلمانوں کے لیے آزاد ریاست صرف ایک زمین کا ٹکڑا لینے کا نام نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کے لیے تجربہ گاہ کا حصول ہے جہاں وہ اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں قائداعظم محمدعلی جناح تو ہم سے بچھڑ گئے لیکن کیا آج ہم اس طرز پر زندگی گزار رہے ہیں جس کے لئے پاکستان حاصل کیا گیا تھا

 آج ہمارا معاشرہ دروغ گوییء زنا شراب سود سے اٹا ہوا ہے اور مسلسل تیزی کے ساتھ تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے ہمارے سیاست کا حال یہ ہے کہ ہم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان سے لیکر اب جوکر حضرات پر پہنچے ہیں اور اب نہ جانے آگے کیا ارادہ ہے

 .   ہمارے تعلیمی نصاب کا خال یہ ہے کہ ہم چھٹی کلاس کے طالب علموں بالخصوص بچیوں کو یہ پڑھا رہے ہیں کہ "سنڈریلا گھر سے بھاگ گئی تھی" اور اس کے بعد ہمارا میڈیا اسکو تحفظ دیتے ہوئے قندیل بلوچ کو آ ئیڈیل کے طور پر پیش کرتی ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ  ان آنکھوں نے محسن  پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیرخان کو زمین پرسڑک کنارے  بیٹھ کر انٹرویودیتے اور چائے والے کو حائی فائ سٹوڈیو میں بیٹھ کر انٹرویو دیتے دیکھا ہمارے تعلیمی نصاب کامقصدآج تک  معلوم نہ ہوسکا دنیا کے تمام تر باشعور معاشروں میں  تعلیمی نظام کا ایک  مقصد ہوتا ہے کہ آخر کار ہم نے اپنے شہریوں اچھا شہری بنانا ہے اپنے مذہب پر چلنے کے لئے اچھا انسان بنانا ہے یا  فوجی بنانا ہےلیکن  ہمارا تعلیمی نظام یوں لگتا ہے جیسے کہ کلرک پیدا کرنے کے لئے موجود ہے آج ہم ٹیپو سلطان کے بارے میں  کیا جانتے ہیں صلاح الدین ایوبی کے قصے  کس نوجوان کے دل میں زندہ ہیں اگر آج ہم اپنے بچوں کو مسٹر چیپس کی بجائے صلاح الدین ایوبی ٹیپو سلطان محمد بن قاسم کے اسباق پڑھانا شروع کردیں تو ہمارے آج کے نوجوان انتہائی عقلمندجرآت مند اور مجاہدین اسلام بن کر ایک معاشرے کی تکمیل کر سکتے ہیں جو کہ  اسلامی طرز کا ہو

 لیکن اسطراح کے نصاب نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے طالب علم صرف نمبرات حاصل کرنے کے لیے پڑھتا ہے اور ایک ریوڑکی صورت میں اداروں میں داخل ہوتا ہے اور چلا جاتا ہے نہ اسے اپنے آنے کا مقصد معلوم ہے نہ جانے کا اور نا ہی علم کی فضیلت معلوم ہے  صرف نمبرات کے لیے پڑھتا ہے چلا جاتا ہے لیکن کب تک ایسا رہے گا یہ بات بادی النظر میں ہے کہ اگر اسی طرح چلتا رہا اتو ایک دن ہم معاشرے سے ختم ہونے کی کگار پر آجائیں لیکن ہم ایک قوم ہیں ہم زندہ رہنے کے لیے بنے ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں اس لیے آج تک ہم زندہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے ہمارے ریاست کی بنیاد اسلام ہے اور اسلام کبھی غلط نہیں ہوتا 

میں ایک بات ضرور عرض کرنا چاہوں گا اپنی بہنوں کے لیے کہ ہمارے بہنوں کو امہِ مارہ نہیں پڑھایا  جاتا  فاطمہ بنت عبداللہ کے بارے میں  آج ہماری  کونسی بہن بیٹی جانتی ہے کیا کبھی آپ نے ہمارے نامور چینل پر ان کے قصے سنے ہیں اب ہم اس جگہ پہنچ چکے ہیں جہاں پر میرا جسم میری مرضی کے نعرہ لگنا شروع ہو گئے ہیں میں اس طرح کے نعرے لگانے والوں کو یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ مغرب کی مثال دیتے ہیں وہاں تو اب حجاب کے لئے بھی غیرمسلموں نے آواز اٹھانا شروع کر دی ہے وہاں حال یہ ہے کہ وہاں کی بڑی عمر کی خواتین  شادیاں کرنے کے لیے پاکستان آ رہی ایسی بات روزانہ ہمارے میڈیا کی زینت ہوتی ہیں

 ہمارے گھروں کو خراب کرنے میں ایک بڑا کردار مارنگ شوکا بھی ہے جب تک اشفاق احمد جیسے لوگ مارنگ شو   کیا کرتے تھے  دنیا ان سے فاءدہ اٹھاتی تھی اور یہ معاشرتی برائیاں ختم کرنے کا ایک اعلٰی کار ہوتے تھے  لیکن اب تو یہ معاشرے میں بگاڑ کے صورت بنتے جارہے ہیں جھوٹ بے حیائی کا مرکز بنے ہوئے ہیں آخر میں یہ کہنا چاہوں گا ہمیں سوچنا ہوگا ہم کہاں جا رہے ہیں ہماری منزل کیا ہے ہمارامقصد کیا ہے آج تک ہم یہ  بات نہ معلوم کرسکے کہ آخر ہماری قوم نے جانا کہاں ہے ہمارا مقصد کیا ہے ہماری  منزل کیا ہے  اور آخر میں ضرور عرض کر  دینا چاہتا ہوں کہ ترقی کا ایک ہی راستہ اورو ہ اسلام اور شریعت کا راستہ ہے اس کے علاوہ جو راستے ہیں وہ مغرب میں جا کر ڈوب جاتے ہیں آپ اس دنیا میں اپنے آنے کا مقصد معلوم کریں اور اس مقصد کے تحت زندگی گزاریں کبھی بھی حالات کے بدلنے کا انتظار نہ کریں کیوں کہ ساز گار حالات انبیاء کو بھی میسر نہ آئے اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اپنے دنیا میں آنے کا مقصد بنائیں  اور اس کے تحت کام کریں اور انسانیت کی فلاح کے لیے کام کریں آپ خود بخود زندگی میں کامیاب ہوتے جائیں گے لوگ اکثر کامیابی کا راز پوچھتے ہیں تو میں بتا دینا چاہتا ہوں  کامیاب کا ر از محنت ہے اور یہ کوئی راز نہیں