شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے     

  
                                                               

                                                                       
آ ن لا ئن کلاسز،ملک کے مختلف علاقوں میں انٹرنیٹ کی غیر تسلسل فراوانی، طلباء کا مستقبل داؤ پر۔کرونا کی وباء کے بعد سے احتیاطی تدابیر کے تناظر میں حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کو تاحکم ثانی بند کر دیا گیا ہے۔ بارہویں جماعت تک کے طلباء کو اگلی کلاسوں میں پرموٹ کر دیا گیا جب کہ جامعات کو آن لائن کلاسز کے اجرا ء کی ہدایات جاری کی گئیں جس پر طالبعلموں کی جانب سے ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا گیا۔مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب ایچ ای سی کی جانب سے آن لائن کلاسز کی بنیاد پر آن لائن سسٹم سے امتحانات لینے کا فیصلہ سامنے آیا جس پر سوشل میڈیا صارفین نے کافی تنقید کی اور ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔  
مختلف طلباء تنظیموں کی جانب سے آن لائن کلاسز اور امتحانات کے خلاف احتجاج کیا گیا۔اس وقت وہ علاقے جہاں کے طلباء  انٹرنیٹ کی فراوانی نا ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ متاژر ہیں ان میں بلوچستان کے بیشتر اضلاع پنجاب میں  راجن پور ڈیرہ غازی خان سمیت لیہ اور بھکر میں تھل کا  علاقہ اور میانوالی کا پہاڑی سلسلہ شامل ہیں۔دوسرے تمام شہروں میں ہونے والے احتجاج میں وہاں  کے طلباء ان علاقوں کے لیے آواز ضرور بلند کر رہے ہیں۔تمام طلبا ء کا مشترکہ مطالبہ ہے کے جامعات کے تمام طلباء کو پروموٹ کیا جائے۔اور آنلائن کلاسز کے دوران فیسیں بھی کم لی جائیں جامعات کے اخراجات کم ہوگئے ہیں اور وباء کی وجہ سے غریب طلباء کے لیے اس صورتحال میں بھاری فیس ادا کرنا ممکن نہیں۔
 اس وقت جامعہ پنجاب،جامعہ بلوچستان،بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان،جی سی یونیورسٹی لیہ،غازی یونیورسٹی اور ایجوکیشن یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان،گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان،اور جی سی یونیورسٹی فیصل اور ایجوکیشن یونیورسٹی  فیصل آباد کے طالب علم نہایت زیادہ متاثر ہیں کیونکہ ان کا تعلق پسماندہ علاقوں سے ہییہ تمام تر علاقے پہلے ہی تعلیمی لحاظ سے بہت پیچھے ہیں اگر اسی طرح آ ن لائن کلاسز اورامتحانات لیے گیے تو خدشہ ہے کہ یہاں کے بہت سارے طالبعلم پیچھے رہ جائیں گے اور امتحان میں پاس نہ ہو سکیں گے جس کی وجہ سے یہ علاقہ دوبارہ جہالت کے اندھیرے گڑہوں میں چلا جائے گا وزیراعلی پنجاب  بزدارصاحب سے گزارش ہے کہ ان علاقوں میں یا تو انٹرنیٹ کی فراوانی بہتر بنائی جائے اس کے علاوہ بلوچستان اور دوسرے علاقوں میں بھی انٹرنیٹ کی فراوانی کے لیے متعلقہ حکام کام کریں تاکہ تمام طلباء امتحان دے کر ہی اگلی کلاس میں جائیں تاکہ تعلیم کا معیار برقرار رہے اگرایسا ممکن نہیں تو پھر تمام طلباء کو پروموٹ کیا جائے تاکہ کوئی بھی علاقہ پیچھے نہ رہ جائے 
اس بارے میں جب ہم نے ایچ ای سی سے رابطہ کرنے کے کوشش کی تو ان  نمائندے نے کہا کہ اس وقت ہمیں اس متعلق کوئی انفارمیشن شیئر کرنے کی اجازت نہیں ہے البتہ جیسے ہے اس  بارے میں فیصلہ کر لیا جائے گا تو آپ اسے ایچ ای سی کی ویب سائیٹ سے دیکھ سکیں گزشتہ دنوں ایچ ای سی کے چیئرمین صاحب نے طالب علموں کی رائے لینے کے لیے ایک کانفرنس منعقد کی لیکن صد افسوس اس میں طلباء کی رائے کو کوئی اہمیت نا دی گئی  سب سے سنگین مسئلہ یہ ہے کہ ان تمام اداروں اور علاقوں کے طلباء پاکستان میں موجود تمامطالب علموں کے حساب سے  نہایت قلیل ہیں جس کی وجہ سے ان کے بارے میں فیصلہ لینا بہت مشکل ہے مگرلاہور سمیت  دوسرے بڑے شہروں کے طلباء نے اپنے ان پسماندہ بھائیوں کے  حق کے لیے ا حتجاجی ریلیاں نکالی ہیں جس کی وجہ سے امید ہے کہ  ایچ ای سی کوئی فیصلہ ضرور کرے گی اگر ان علاقوں کے طلباء کی مجبوریوں کو نہ سمجھا گیا تو قیاس ہے کہ یہاں سے احتجاج کی  ایک لہر اٹھے گی جو کہ تمام ملک کو اپنے لپیٹ میں لے لیگی۔اس وقت پورے ملک کے طلبایء فیسوں  کے معاملے پر کافی ردعمل ظاہر کر رہے ہیں 
امید کی جاتی ہے کہ طالب علموں کو ان کے حق سے محروم نہیں رکھا جائے گا اور ان کے مطالبات کو زیرغور رکھا جائے گا۔اور اس ماعملے کو جلد از جلد نمٹانے کے لیے حکومت بر وقت موئثرفیصلے کرے گی۔