”یا خدا“ کو تخلیق ہونے کے تقریباً 70 سال بعد پڑھنا اپنے آپ میں ایک انوکھا احساس ہے آج جب کہ مہاجرین کی وہ نسل جس نے یہ مشکل بھرا وقت گزارا اپنے خدا کے ہاں آرام فرما ہیں۔
”یا خدا“میں لکھی حقیقت کچھ یوں ترتیب دی گئی ہے کہ اس میں موجود کسی کردار سے محض نسل یا مذہب کی بنیاد پر نفرت یا ہمدردی کا احساس نہیں ہوتا بلکہ ظالم اور مظلوم سے نفرت یا ہمدردی کی وجہ اس کا کردار ہوتا ہے یہاں پر یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ ظلم جبر اور زیادتی کا تعلق کسی خاص قوم یا مذہب سے نہیں بلکہ یہ ہمارے معاشرے کی ایک شکل ہے
دلشاد کردار کا صرف ایک نام ہے یہ کردار آپ کو کہیں روپا،بنگال کی”بلیک بیوٹی“،پرنیتی کور، اسکارلیٹ کییلنگ،کشمیر کی سیب گالوں والی معصومہ،چیچنیا کی خوبصورت آنکھوں والی پری اور کہیں ”قاٖ ف“ کی صورت میں نظر آئے گی یہ ہمیشہ ظلم و جبر کے شکار رہی ہیں اس پر ظلم کرنے والے بھی قوم مذہب اور مملکتوں سے ماوراء ہیں یہ آپ کو کہیں ذیشان،رامداس، سرجیت سنگھ اورکہیں کسی نیازی کی
صورت میں نظر آئیں گے
”یا خدا“پر لکھی گئی تنقید اُس دور میں زیادہ تر
دیباچے کی وجہ سے تھی اور یا خدا اُس کی زَد میں رہا لیکن جب آج ستر سال بعد اس کا مطالعہ کیا تو معلوم پڑتا ہے کہ وہ تنقید غیر جانبدارنہ تھی ”یا خدا“ ہر لحاظ سے مکمل اور جامع افسانہ ہے قدرت اللہ شہاب صاحب کو خدا تعالی جنت میں وہ ا علی مقام عطا فرمائے جو کہ اپنے پیارے بندوں کوعطاکرتا ہے۔انھوں نے اپنے اس کتابچے میں مکمل ایمانداری سے محنت اور بِلا کسی خوف و خطر کے سچ کو بیان کیا اور اپنے آنے والوں کے لئے ایک مثال قائم کی کہ اگر آپ سچ کا پرچار کریں تو اگلے سال ستر کیا سو سال تک دنیا آپ کی معترف رہے گی چاہے آپ اس دنیا میں ہوں یا نہ۔
اس کتاب کے متعلق ہر دور اور زمانہ میں آپ کو نئی رائے دیکھنے کو ملے گی لیکن اس پر جو ممکنہ تنقید ہوسکتی تھی وہ اس دور میں ہو چکی اور سطحی ذہن نقاد جنہوں نے اس دور میں صرف اپنی کم سمجھی کی وجہ سے تنقید کی تھی اپنی تحریروں سمیت منوں مٹی تلے جا بسے ہیں
3 تبصرے
ہم نے خدا کا رد لکھا نفی با نفی لا بلا
جواب دیںحذف کریںہم ہی خدا گزیدگاں تم پہ گرا گزر گئے
جون
Wow
جواب دیںحذف کریںGood
جواب دیںحذف کریں