قسط 1
کوئٹہ میں اس رات اچھی بارش ہوئی تھی یہ سردیوں کے موسم کا اختتام تھا مگر اب بھی کافی سردی ہوتی تھی۔
علیناکل سے تمہارا سکول کھل رہا ہے اپنی کتابیں وغیرہ اچھی طرح دیکھ لو کچھ کم تو نہیں ہے بیگم غلام حسن اپنی چھوٹی بیٹی سے کہتی ہے؛
امی آپی نے ساری چیزوں کو اچھی طرح دیکھا ہے وہ کہہ رہی تھی سب کچھ مکمل ہے میں سونے جا رہی ہوں کل صبح مجھے جلدی جگا دیجئے گا علینا اپنے اور سحرش کے سونے والے کمرے کی طرف جاتے ہوئے کہتی ہے۔
اچھا بیٹا شب بخیر دوسرے دن سحرش یونیورسٹی چلی جاتی ہے اور علینا بھی اپنے سکول کو ہو لیتی ہے یونیورسٹی میں اپنی کلاس لینے کے بعد سحرش اپنے گھر کو لوٹ آتی ہے ہے جب وہ گھر آتی ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی چچازاد بہن آئی ہوئی ہے وہ دونوں کافی دیر تک گپیں مارتے رہتے ہیں اور پکوڑے اور چائے سے لطف اندوز ہوتے ہیں شام کوغلام حسن صاحب گھر آ جاتے ہیں اور اپنی بھتیجی سے کافی دیر باتیں کرنے کے بعد اسے گھر چھوڑنے جاتے ہیں وہاں مسٹر غلام حسن کی اپنے بھائی سے ملاقات ہو جاتی ہے اور وہ کچھ دیر تک گفتگو کرتے رہتے ہیں چائے پینے کے بعد غلام حسن اپنے گھر کو لوٹ آتے ہیں نوروز بھی اس وقت اپنے گھر پر تھا غلام حسن صاحب کے اس سے بھی ملاقات ہوتی ہے اور دونوں یونیورسٹی کی تعلیم کے متعلق بات کرتے رہتے ہیں نوروز بچپن ہی سے اپنی پھپھو کا لاڈلا تھا جس وقت اس کے میٹرک کے امتحانات کا نتیجہ آیا تھا جو کچھ خاص اچھا نہیں تھا تووہ اپنے گھر والوں کے ڈانٹ سے بچنے کے لئے وہ سیدھا اپنی پھپھو کے گھر چلا گیا تھا۔ایک دن وہی رہا تھا اس سے آپ ان کے درمیان محبت کا اندازہ لگا سکتے ہیں اگلے دن سحرش یونیورسٹی چلی جاتی ہے وہاں وہ نوروز کے ساتھ کچھ نوٹس کے متعلق بات کرتی ہے اور اسے کہتی ہے کہ آج شام کو ان کے گھر آکر اسے نوٹس وغیرہ دے جائے یہ بات اس کے لیے نئی نہیں تھی۔ وہ اکثر نوٹس کے تبادلے کے لیے ان کے یہاں چلا جایا کرتا تھا کیونکہ وہ اس کی چچازاد تھی
سحرش اور نوروز کے درمیان زیادہ بات چیت نہیں ہوتی تھی وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے کوئی خاص معنی نہ رکھتے تھے ا صل میں سحرش ایک خوداعتماد لڑکی تھی یہ خود اعتمادی اسے اپنے والد کی طرف سے مکمل یقین اور اعتماد کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی اس وجہ سے وہ جب بھی کسی غیر آدمی سے بات کرتی تو اس کے لہجے میں ایک خاص قسم کی خود اعتمادی جھلک رہی ہوتی تھی اور وہ دوسروں کو یہ ظاہر کرتی تھی کہ وہ نہ تو ان سے ڈرتی ہے اور نہ ہی ان کی غلام ہے یا وہ کسی مرد سے کم تر ہے اپنے والد کے اس اعتماد کا نتیجہ تھا کہ وہ اپنے چچا زاد کو کوئی بھی کام بلا جھجک بتا سکتی تھی۔
سحرش بیٹا نوروز آیا ہے امی اسے بلاتی ہوئےکہتی ہے
السلام علیکم بھائی کیسے ہیں آپ
وعلیکم السلام میں ٹھیک ٹھاک آپ سنائیں رسمی علیک سلیک کے بعد نوروز مسسز غلام حسن کی موجودگی میں نوٹس وغیرہ سحرش کے حوالے کرکے جانے لگتا ہے تو اس کی چچی اسے چائے وغیرہ کے لئے روک لیتی ہیں
وہ بیٹھ کر چائے پیتا ہے اور چچا کے گھر کی خیریت معلوم کرتا ہے علینا بھی گھر آ چکی ہوتی ہے وہ اپنے پڑوس گئی ہوئی تھی
آو علینا کیسی ہو تم نوروز ا سے دیکھ کر کہتا ہے
بھائی میں بالکل ٹھیک ہوں آپ سنائیں کس طرح ہیں نوروز بے تکلف ہوکر کہتا ہے بھائی جس کی تمہارے جیسے بہن ہو اسے بھلا کیا ہو سکتا ہے اچھا بھلا ہی تو ہوں۔
ان کی بے تکلف کی وجہ یہ تھی کہ سحرش کا بھائی چھوٹا تھا نوروز ہی ان کے گھر کا کرتا دھرتا تھا اور وہ علینہ کی پڑھائی وغیرہ کے حوالے سے اس پر گہری نظر رکھتا تھا
چلو جاؤ ذرا اندر سے اپنی ٹیسٹ کے پورٹ لے آؤ۔ آج ہم بھی تو دیکھیں ہمارے بہن کوئی کارگردگی بھی دکھا رہی ہے یا صرف ہمارے لیے دعائیں ہو رہی ہیں یا کچھ پڑھائی پر بھی دھیان ہے
بھائی آپ رپورٹ دیکھ کر کیا کریں گے میں آپ کیلئے دعائیں تو کر ہی رہی ہوں نا
میری پیاری سی گڑیا اچھا مکھن لگا تی ہو مگر پہلے جاؤ رپورٹ لے آؤ دعاؤں سے کام نہیں چلے گا
اچھا بھائی لے آتی ہوں ابھی اتنا بھی سیریس ناہوں علینا اٹھ کر اندر چلے جاتی ہے
علینا اپنے ٹیسٹ ریکارڈ باہر لے آکر نوروز کو دکھاتی ہے
تمہاری رپورٹ اب کچھ بہتر ہو رہی ہے لیکن چھٹیوں کے فورا بعد بالکل بھی حالت نہیں تھی
بھائی تو پھر کیا کروں آپ کو تو پتہ ہے کہ چھٹیوں میں پڑھا ہی نہیں جاتا سارا دن بس گپیں ہوتی ہے اور کام ہوتے ہیں علینہ کی امی درمیان میں بول پڑتی ہے ہاں وہ تو سب کو پتا ہے کہ تم کتنے کام کرتی ہو سارا دن تو سوتی رہتی تھی سارے گھر کے کام میں اور سحرش کرتی تھیں
امی بھائی کو پتا ہے میں سب سے زیادہ کام کرتی ہوں اب آپ اپنی تعریف نہ کریں اچھا جی میں مان لیتا ہوں یہی سب سے زیادہ کام کرتے ہے اس بات پر علینا کی امی اور نوروز ایک اونچا قہقہ لگاتے ہیں
بھائی آپ خود بھی تو سٹوڈنٹ ہیں آپ کو معلوم ہے کہ چھٹیوں میں پڑھائی نہیں ہوتی لیکن اب آپ دیکھیں میری کارگردگی میں بہتری آ رہی ہے
میری بہن میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں کوئی بات نہیں لیکن آئندہ محنت کرو اور اچھے نمبرات حاصل کرو نا کہ ہماری طرح نکمی ہو جانا
بھائی میں محنت کروں گی بس آپ دعا کریں علینا وہاں سے اٹھ کر چلی جاتی ہے اچھا چچی جان میں چلتا ہوں اللہ حافظ۔
عام طور پر بلوچ گھرانوں میں قریبی رشتہ داروں کے بچوں میں بھی اس طرح بے تکلفی نہیں پائی جاتی لیکن کیونکہ علینا نوروز سے عمر میں بہت چھوٹی تھی اس لئے ان کے درمیان بے تکلفی تھی لیکن نوروز اور سحرش دونوں ہم عمر تھے اس لیے ان دونوں کی ایک دوسرے سے زیادہ بات چیت نہیں ہوتی تھی وہ دونوں ایک دوسرے سے کنارہ کش نظر آتے تھے اور ان میں سردمہری پائی جاتی تھی شام تک حسن صاحب گھر آ جاتے ہیں ان کے زوجہ انہیں نوروز کی آمد کے متعلق بتاتی ہے تو وہ اس کی خیر خیریت پوچھ کر کھانا کھانے بیٹھ جاتے ہیں اور سحرش اور علینا سے ان کی پڑھائی کے متعلق اور اپنے دن کی مصروفیت کے بارے میں باتیں کرنے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ (جاری ہے)
0 تبصرے