کالم نگار: حافظ شفیق الرحمان
مفتی نظام الدین شامزئی کا شمار پاکستان اور عالم اسلام کے نامور علمائے دین میں ہوتا ہے۔انہیں30 مئی 2004 اتوارکی صبح پونے آٹھ بجے کے قریب پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گھر سے جامعہ بنوریہ جاتے ہوئے پہلے سے گھات لگا کر بیٹھے تاحال نامعلوم قاتلوں نے فائرنگ کرکے شہید کردیا.
فائرنگ انتہائی خوفناک تھی۔ فائرنگ کا انداز اس امر کی نشاندہی کر رہا تھا کہ دہشت گردی انتہائی مشاق اور تربیت یافتہ تھے حملہ آوروں کی فائرنگ سے مفتی شامزئی شہید رحمہ اللہ کے صاحبزادے کے علاوہ ان کا ڈرائیومحمدطیب بھی زخمی ہوا فائرنگ کے بعد شامزئی شہید کے شاگراور عقیدت مند انہیں فوری طور پر لیاقت نیشنل ہسپتال لے کر گئے تاہم وہ جانبر نا ہوسکے مفتی شامزئی کے بیٹے کی جوابی فائرنگ سے ایک حملہ آور زخمی ہوا تاہم اس کے تربیت یافتہ ساتھی اسے انتہائی مہارت اور مستعدی کے ساتھ جائے واردات سے اٹھا کر لے گئے حملہ آور اپنی موٹرسائیکل چھوڑ گئے جسے مفتی صاحب کے شاگردوں نے اپنی تحویل میں لے لیا۔
ناہنجار لیکن نامعلوم دہشت گردوں کی فائرنگ سے مفتی صاحب کا وہ وجود چھلنی ہو گیا جو علوم قرآنیہ اور علوم الحدیث کا سانس لیتا ہوا ایک بحرِ زخار تھا۔مفتی نظام الدین شامزئی شہید کی یاد میں عالم اسلام کے شہریوں کے دل صدیوں سوگوار اور آنکھیں اشکبار رہیں گی۔وہ حقیقی معنوں میں 21صدی میں قرنِ او ل کا ایک متحرک ومتنفس ورق تھے۔انکی شخصیت میں قرنِ اولیٰ کے طورع تقشف،تقویٰ اور تدین کی جھلک پائی جاتی تھی۔ علوم الحدیث پر وہ ایک سند کی حیثیت رکھتے تھے۔مفتی نظام الدین شامزئی جیسے عظیم دینی رہنما کا دن دہاڑے قتل ہو جانا اس امر کا جیتا جاگتا ثبوت تھا کہ صوبائی حکومت کراچی شہر میں امن و امان کی تیزی سے بگڑتی صورتحال پر قابو پانے میں بری طرح سے ناکام تھی۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے مفتی شمسی کی شہادت کو شیخ احمد یٰسین اور عبدالعزیز رنتیسی کی شہادت سے تعبیر کیا تھا ان کا نقطہ نظر تھا کہ ”اس کے پیچھے اسی صہیونی لابی اور ان کے گماشتوں کا ہاتھ ہے جس نے دنیا بھر میں مسلم دینی سکالرز کے قتل کا طولانی سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔“ کراچی شہر کے امن و امان کو سبوتاژ کرنے والے امن دشمن اور وطن دشمن عناصر کے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے غیرملکی ایجنسیوں کی ہمہ جہتی امداد حاصل رہی۔یہ ایجنسیاں وطن عزیز میں مسلکی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے شعلوں کو ہوا دے کر گلی گلی قتل و غارت کا بازار گرم کرنا چاہتی تھیں۔ ملک میں عدم استحکام پھیلانے کی سازش تیار کرنے والی ان غیر ملکی ایجنسیوں میں بعض عالمی اور ہمسایہ ممالک کی ایجنسیاں بھی پیش پیش رہیں۔
مفتی نظام الدین شامزئی شہید جولائی1952کو سوات میں پیدا ہوئے آپ کے والد آپ کے بچپن ہی میں دار فنا سے عالم بقا کی طرف منتقل ہو گئے تھے اپنے یتیم بھائی کی کفالت کی ذمہ داری آپ کے بڑے بھائی نے اٹھائی اور بطریق احسن نبھائی۔آپ نے ابتدائی تعلیم مینگورہ سے حاصل کی شروع ہی سے ان کا شمار ذہین طلباء میں ہوتا تھا۔مبادیاتی علوم کی تحصیل کے بعد جب علم کی تشنگی صیقل ہوئی تو مزید سیرابی اور ذہنی شادابی کے لیے آپ عازمِ شہر قائد ہوئے تب شہر قائد کراچی منی پاکستان اور حقیقی معنوں میں روشنیوں کا شہر تھا۔اسلامیت، پاکستانیت،محبت،اخوت اور ہمہ جہتی عصبیتوں اور منافرت سے پاک روشنیوں نے اس شہر کوبقعہ نور بنا رکھا تھا۔ نظام الدین شامزئی نے کراچی آمد کے بعد یہاں کے مشہور و معروف مدرسہ جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی میں میں جید اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیا۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد اسی مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دیں بعدازاں جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاون کراچی میں مفتی احمد الرحمن کے حکم اوراُن کی دعوت پر وہی استاذالحدیث کی حیثیت سے شاندار انداز میں فرائض منصبی ادا کیے۔ جامعہ فاروقیہ سے فراغت کے بعد آپ نے حضرت شیخ کے حکم سے جامعہ فاروقیہ میں تدریس شروع کردی اور تقریباً 20 سال تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔پھر وقت شہادت تک اس شہرہ آفاق جامعہ کے شیخ الخدیث اور شبعہ تخصص فی الفقہ کے نگران رہے۔
آپ کی تصانیفِ لطیف میں شرح مقدمہ مسلم،عقیدہ ظہورِ مہدی احادیث کی روشنی میں، والدین کے حقوق،پڑوسیوں کے حقوق اور پی ایچ ڈی کا مقالہ شیوک بخاری بین الاسلامی علمی حلقوں سے تحسین و ستائش کا خراج وصول کر چکی ہیں۔ مولانا زاہدالراشدی وطنِ عزیز کے جید اور بزرگ علماء میں سے یاد گار ِاسلاف ہیں۔ایک مضمون میں مفتی نظام الدین شامزئی بارے اپنی یادشتیں بہ ایں الفاظ حوالہ قرطاس و قلم فرماتے ہوئے ان کے ایک معرکتہ الآراء بین الاسلامی اور بین الاقوامی کارنامہ کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں ”قومی سطح پر مفتی نظام الدین شامزئی اس وقت ابھرے جب انہوں نے خلیج عرب میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوج کی موجودگی کے خلاف عرب علماء کی احتجاجی تحریک کی حمایت میں فتویٰ دیا اور ملک کے مختلف حصوں میں سیمینار منعقد کرکے اہل ِدانش کی توجہ اس جانب مبذول کرائی خلیج عرب میں امریکی افواج کی آمد اور عرب کے علماءِ حق کی احتجاجی جدوجہد کے حوالے سے مجھے یہ دیکھ کر بہت زیادہ خوشی اور مسرت ہوئی کہ اسے مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒکے حلقے نے اور پھر حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہید نے سنبھال لیا اور اس خوبی کے ساتھ سنبھالا کہ اس کا حق ادا کر دیا۔ مفتی نظام الدین شامزئی صرف روایتی عالم دین نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کے مصائب پر کڑھنے والے اور امت کی مشکلات کے حل کی تلاش میں مضطرب اور بے چین رہنے والے حق گو رہنما بھی تھے،حتیٰ کہ اسی راہ میں انھوں نے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیا
اس سانحہ عظیم کے بعد اس دور کی حکومت کو روایتی اقدامات کے بجائے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیے تھے۔بڑی ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی تھی کہ وہ محض سیاسی مصلحتوں اورپیش پا افتادہ مفادات کی خاطر شہرقائدکو دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بننے سے بچاتی جب مفتی صاحب کی شہادت ہوئی کراچی شہر ایک آسیب زدہ شہر بن چکا تھا۔عدم تحفظ کے احساس نے اکثر شہریوں کو اعصابی،دماغی اور نفسیاتی عوارض کا شکار بنا دیا تھا۔عالم یہ تھا کہ صبح کام کاج کیلے گھر کی دہلیزسے باہر نکلنے والے اکثر شہری اپنے اہل خانہ سے الوداعی سلام لے کر رخصت ہوتے گھرسے نکلنے والے کسی شہری کو بھی اس امر کا یقین نہ ہوتا کہ وہ بخیروعافیت شام کو گھر لوٹ سکے گا شہر قائد کو اس کا امن، رونقیں،بھائی چارے کی فضااور عصبیتوں سے پاک ماحول مہیا کرنا بہر طور وفاقی حکومت کے اعضاء و جوارح اورصوبائی حکومت کے اعوان و انصار اور اتحادیوں و حلیفوں کی ذمہ داری تھی.
لیکن اس نے محض کسی ایک مخصوص سیاسی گروہ یا اتحاد کے استحکام کی خاطر ایک کروڑ سے زائد آبادی کے شہر کو عدم استحکام کادوزخ بنا رکھاتھا۔ہم نے انہی دنوں سوال اٹھایا تھا حکمرانوں کے بیا نات اور اقدامات کیاعالمِ اسلام کو مفتی نظامالدین شامزئی شہید جیسا نابغہ اور عبقری سکالر لوٹا دینے میں بھی ممدو مددگار ثابت ہو سکتے ہیں کیا اسی قسم کے بیانات ماضی مرحوم میں حکیم سعید کی المناک شہادت کے موقع پر بھی ذینت قرتاس نابنے تھے؟آج سولہ برس 3ماہ8 دن بعد ہم سندھ حکومت کے حکمرانونں سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا مفتی نظامالدین شہید کے قاتل اڑن طشتری پر بیٹھ کر مریخ سے آنے والی غیر مرئی مخلوق تھی کہ آج تک ان کا کھوج نہیں مل سکا
0 تبصرے