سلطنت مغلیہ کی تجہیز و تکفین کے آخری منازل تھے,مسلمانوں پرمغلوبیت اور افسردگی طاری تھی ہر طرف ہلچل مچی ہوئی تھی اس زمانہ میں ہر طرف یہی آواز انسانوں کے منہ سے نکل کر گونج رہی تھی کہ کوئی مسیحا ہی آکر مسلمانوں کو بچائے گا اور دین اسلام کو مغلوبیت سے روکے گا. 


برصغیر کی تاریخ میں بارہویں صدی ہجری کو بڑی اہمیت حاصل ہے. یہ وہ دور تھا جب مسلمانوں کا آفتاب سلطنت و اقتدار تقریبا ایک ہزار سال چمکنے کے بعد غروب ہو رہا تھا.سلطنت مغلیہ کے بعد برصغیر میں سات سمندر پار کرکے آیا انگریز بڑی تیزی کے ساتھ پاؤں پھیلا رہا تھا ایسے نازک وقت میں دل شکستہ اور غم گرفتہ مسلمانوں کو جس شخصیت نے اتباع شریعت اور پیروی سنت کی طرف بلایا اور انہیں ان کا بھولا ہوا راستہ دکھایا وہ عظیم الشان ہستی سلطان العارفین,سلطان التارکین, برہان العاشقین, شاہ شاہاں, فخر دوراں, شہباز چشت, پیران پیر,پیر پٹھان "حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی" رحمتہ اللہ علیہ ہیں. آپ بارہویں صدی ہجری کے چشتیہ نظامیہ سلسلے کے نہایت عظیم الشان اور دلعزیز بزرگ تھے. آپ پٹھانوں کے جعفرانی قبیلہ سے تعلق رکھنے والے تھے.آپ کے مؤرث اعلی کا نام جعفر خان تھا جسکی رہائش کوہستان سلیمان کی دو بلند چوٹیوں تخت سلیمان اور فورٹ منرو کے درمیان ایک پہاڑی علاقہ ہے جو گڑگوجی کے نام سے جانا جاتا ہے اسکے شمال مشرق میں درگ کا وسیع و شاداب کوہستانی خطہ ہے. جعفر مرانہ سے اٹھا اور ہندو حکمران گہنہ کو شکست دے کر اس شاداب خطے پر قبضہ کر کے اپنا ٹھکانہ بنایا اور آباد ہو گئے. 
آپ کا خاندنی نام محمد سلیمان تھا. سلیمان عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی امن والا Peace کے ہیں. حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے کا نام بھی سلیمان تھا جو کہ ایک پیغمبر گزرے ہیں. آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تاریخ پیدائش میں بہت سارے اختلافات ہیں لیکن سب سے معتبر اور جامع تاریخ پیدائش جو کہ انسائیکلوپیڈیا آف پاکستان میں مرتب کی گئی ہے وہ 1184ہجری بمطابق 1770 سن عیسوی بنتا ہے, ہے.  آپ کی جاہ ولادت گڑگوجی ہے جو کی بلوچستان کی تحصیل موسی خیل میں واقع ہے جو تونسہ شریف کے شمال مغرب کی طرف 30 کوس کے فاصلے پر پہاڑوں کے اندر واقع ہے. آپ کے والد امجد کا نام "زکریا بن عبدالوہاب بن عمر بن خان محمد" تھا اور والدہ محترمہ کا نام زلیخا تھا. آپ کے ایک ہی بڑے بھائی تھے جو جوانی ہی میں وفات پا گئے تھے ان کا نام یوسف تھا اور آپ علیہ الرحمہ کی چار بہنیں تھیں. آپ کے والد محترم کا انتقال آپ کی شیر خوارگی میں ہی ہو گیا تھا تو آپ کی تعلیم و تربیت کا اہتمام آپ کی والدہ ماجدہ نے اپنے ذمے لے لیا. جب آپ چار سال کی عمر کو پہنچے تو ملا یوسف جو کہ آپ کی اپنی قوم کا ایک حافظ تھا کے پاس حفظ کیلئے بھیجا.جہاں آپ نے پندرہ پارے حفظ کیے اور اگلے پندہ پاروں کیلیئے آپ حاجی صاحب کے ہاس تشریف لے گئے. اور انہیں کے پاس چند ابتدائی کی فارسی کتب بھی پڑھیں. اسکے بعد آپ میاں حسن علی کے پاس پڑھنے کیلئے تونسہ شریف آئے اسوقت تونسہ ایک چھوٹی سی بستی کا نام تھا جس کے اطراف میں ریت کے ٹیلے ہوا کرتے تھے. ابتدائی تعلیم کی تکمیل ہونے کے بعد آپ کوٹ مٹھن شریف تشریف لائے جہاں ہر قاضی محمد عاقل صاحب کا ایک مدرسہ ہوتا تھا جہاں علوم عربیہ اور اسلامیہ کی انتہائی تعلیم سے آراستہ کیا جاتا تھا. یہاں پڑھنے کے کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جس سے آپ نے دینی تعلیم کو خیر آباد کہا اور وادی تصوف میں قدم جما لیا. آپ کے پیر خواجہ نور محمد مہاروی رحمتہ اللہ علیہ ایک مرتبہ اوچ شریف کے مقام پر تشریف لے گئے تو ادھر سے قاضی محمد عاقل صاحب بھی اپنے پیر کی زیارت کیلیئے وہاں تشریف لے گئے. خواجی نور محمد مہاروی رحمتہ اللہ علیہ اپنے پیر و مرشد مولانا فخر الدین رحمتہ اللہ علیہ اورنگزیب آبادی کے حکم سے کوہستان سلیمان کے شہباز بلند پرواز کی تلاش میں اوچ شریف پہنچ چکے تھے تاکہ اس شہباز کو سدھاریں اور سدرتالمنتہاہ تک پہنچائیں.  اس سے قبل دو مرتبہ خواجہ نور محمد مہاروی صاحب اس شہباز کو مقید کرنے لے لیئے کوہستان کے پہاڑوں کا چکر لگا چکے تھے.  
بحرحال المختصر آپ دونوں کی ملاقات ہوئی اور آپ نے خواجہ نور محمد مہاروی رحمتہ اللہ علیہ سے بیعت فرمائی اور آپ کے بارے میں خواجہ نور محمد مہاروی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا "اس لڑکے نے روحانی اسرار اور نعمت ہی کے حصول کرنے میں ہمیں متعجب و حیران کر دیا اللہ تعالی نے اسے اس قدر وسیع حوصلہ عطا فرمایا ہے کہ جو کچھ حاصل کرتا ہے اسکی استعداد اور قابلیت اس سے کئی گنا بڑھ کر زیادہ ہوتی ہے".
پیرومرشد کی چاہت نے خواجہ شاہ سلیمان کو اپنا بنا لیا یہاں تک کہ جب ان کو اپنے پیرومرشد کی یاد آتی آپ تونسہ سے پیدل مہار شریف چل پڑتے. آپ کے پیرومرشد کو بھی آپ سے بے حد لگاؤ ہو گیا تھا اور انہوں نے اہنے خاص الخاص خلیفوں میں ان کو شمار کر لیا.آخر آپ کے مرشد نے آپ کو تونسہ میں اپنا آستانہ بنانے کا حکم صادر فرمایا تو آپ وہاں سے تونسہ آئے اور اس کو اپنا مسکن بنالیا.جب خواجہ مہاروی ؒ نے خواجہ سلیمان ؒ کو خلافت ظا ہری ،باطنی سے سرفراز کیا تو حکم دیا اب تونسہ جاﺅ۔ سلسلہ کی ترویج اشاعت کا کام کرو ۔ کچھ عرصہ بعد خواجہ نور محمد مہاروی ؒ کا وصال ہوا ۔ خواجہ سلیمان ؒ چند روز تک مزار خواجہ مہاروی ؒ پر معتکف رہے ۔ پھر تونسہ شریف تشریف لائے یہاں نکاح کیا سرائے اور مسجد تعمیر کی اور لنگر عام جاری کیا ۔ آپ ہر سال خواجہ مہاروی ؒ کے عر س پر مہار شریف تشریف لے جاتے تھے آپ سے کافی لوگوں نے رشدوہدایت پائی ۔ کئی درویشوں نے آپ سے آداب الطالبین ، فقرات ، لوائح عشرہ کاملہ ،فصوص الحکم ، نقدالمخصوص ، احیاءالعلوم ، فوائد الفوائد ، سواءالسبیل ، تسنیم ، فتوحات مکیہ اور نفحات الا نس جیسی کتابیں پڑ ھیں اور درجہ کاملیت پر فائزہوئے ۔خواجہ سلیمان ؒ حضرت غوث الا عظم ؒ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ سے کافی مشاہبت رکھتے تھے ۔ یہاں ابراہیم درویش ؒ فرماتے ہیں کہ مجھے شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی زیارت ہوئی ۔ خواجہ سلیمانؒ اور شیخ عبد القادرؒ میں زرہ برابر فرق نہیں ۔اللہ تعالی نے خواجہ سلیمان ؒ کو اس قدر اعلی ظرفی عطا کی تھی کہ آ پ جو چونسٹھ برس تک مسند پر رونق افروز رہے مگر اظہار کرامت کبھی نہ کیا ۔آخر ی عمر میں آپ خواجہ مہاروی ؒ کا عرس تونسہ شریف میں ہی کرواتے تھے. تونسہ میں آپؒ نے لاکھوں لوگوں کو مشرف بہ اِسلام کیا اور اُن کے دلوں کو ایمان کے ’’نور‘‘ سے منور فرمایا ۔خواجہ شاہ سلیمان تونسویؒ اپنی ذات میں ایک ادارہ کی سی حیثیت رکھتے تھے آپؒ نے اُس دور میں تونسہ شریف میں دارالعلوم کی بنیاد رکھی ،جب مسلمانانِ برصغیر کی تعلیمی،مُعاشی،معاشرتی اور اخلاقی حالت ناگفتہ بہ تھی ۔بالخصوص تعلیمی میدان میں تو مسلمان،یہاں بسنے والی دوسری قوموں سے کوسوں دور تھے ، اس دارالعلوم میں تمام روحانی علوم کیساتھ علوم قدیم و جدید کا بھی اہتمام کیا گیاتھا ،پچاس کے قریب اساتذہ و علمائے کرام قرآن وحدیث اور شریعت وطریقت کا درس دینے مصروف رہتے ،ہزاروں کی تعداد میں تشنگانِ علم و سلوک یہاں آکر علم کی روشنی سے اپنے قلب واذہان کو منور کرتے اور توحید ورسالت کے نور سے سینوں کوسیراب کرتے ،خواجہ شاہ سلیمان تونسویؒ کی حیاتِ پاک کا ایک ایک ورق تعلیم و عمل اور جہدِ مسلسل اور عشقِ رسول ؐ سے عبارت ہے۔سر زمینِ تونسہ شریف پر ہی آپ ؒ نے دارالعلوم کے اساتذہ کرام ،طلباء اور عوام الناس کی صحت کے پیش نظر ایک ہسپتال کی بھی بنیاد رکھی اور دار العلوم اور ہسپتال کی تمام تر ذمہ داریوں کو اپنی پوری حیاتِ مبارکہ میں بطریقِ احسن نبھایا.
آپؒ کے تقسیمِ اوقات پر اگر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کس خوبی سے ،عبادات ومعاملات ،اوردرس وتدریس کو الگ الگ وقت دیا گیا،مداومت اور اِستقامت کا یہ حال کہ آپؒ نے۸۴ برس کی طویل عمر پائی،لیکن اس میں ایک دن بھی فرق نہ آنے پایا،یہاں تک کہ آخری رات بھی فرائض و نوافل ادا کر کے اپنے رفیقِ اعلیٰ سے ملے۔۔۔آپؒ کے اِس عملی نمونہ کے اثرات یہ تھے کہ آپؒ کی خدمتِ اقدس میں رہنے والے تمام کے تمام یارانِ طریقت ،اتباعِ سنت اور شریعتِ رسول عربیؐ کے عملی رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور سبھی کے قلب و اذہان عشقِ مصطفٰے ؐسے منور تھے۔

پاکستان میں بابا فریدالدین گنجِ شکرؒ اور قبلہء عالم خواجہ نور محمد مہارویؒ کے بعد خواجہ شاہ سلیمان تونسویؒ ہی کی ذاتِ گرامی ہے کہ جس کی نظرِ عنایت سے سلسلہ چشتیہ،نظامیہ کو بے حد فروغ ملا۔آپؒ کے آستانہء عالیہ سے فیض پانے والے حضرت خواجہ شمس الدین سیالویؒ ،خواجہ قمرالدین سیالویؒ ،سیال شریف۔۔۔سید پیر مہرعلی شاہؒ ،گولڑہ شریف۔۔۔پیر کرم شاہ الازہرؒ ی،بھیرہ شریف۔۔۔سید اسماعیل شاہؒ ،کرمانوالے ۔۔۔ابو مختارحضرت خواجہ صوفی جمال الدین چشتی تونسوی مغل پٹھانؒ ،(خانقاہ دارالجمال)دیپال پور۔۔۔خواجہ محمد اکبرؒ ،بصیر پور۔۔۔جلال پور شریف۔۔۔کوٹ مٹھن شریف۔۔۔گڑھی اختیارخان شریف۔۔۔میرا شریف۔۔۔حضرت خواجہ جان محمد کریمی تونسوی،انتالی شریف۔۔۔اورخواجہ حسن نظامیؒ کی خانقاہوں سے آج بھی روحانیت کے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔اس وقت آپؒ کی مسندِ سجادگی پر حضرت خواجہ عطاء اللہ خاں تونسوی سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور جلوہ افروز ہیں جبکہ دوسری گدی پرحضرت خواجہ نصرالمحمود نظامی تونسوی جلوہ گر ہیں ۔ آپؒ کا سالانہ عرسِ مقدس 5-6-7صفر کو انتہائی عقیدت و احترام اور شایانِ شان طریقے سے منایا جاتا ہے،جس میں نہ صرف پاکستان ،بلکہ افغانستان،ہندوستان اور ایران سے زائرین جوق در جوق حاضری دینے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
اس سال بھی آپ کا عرس مبارک جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے. 
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں التجا گو ہوں کہ ہمیں اولیاءاللہ کی تعظیم اور انکی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے. آمین!! 

Attachments area