گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر چند تصاویر وائرل ہوئیں جن میں اداکارہ صبا قمر اور گلوکار بلال سعید لاہور کی تاریخی مسجد وزیر خان میں گانے کی ویڈیو فلما رہے تھے ۔ ٹویٹر پر بھی ہیش ٹیگ صبا قمر ٹاپ ٹرینڈ رہا ۔
آخری اطلاعات تک وزیراعلی پنجاب نے واقع کا نوٹس لے لیا اور بلال سعید نے بھی معذرتی ویڈیو پیغام جاری کر دیا جس میں انہوں نے عوام کی دل آزاری پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمل قطعئ نادانستگی میں واقع ہوا ۔مزید یہ کہ ویڈیو کا وہ حصہ ہذف کر لیا جائے گا۔ لوگوں نے اس سارے معاملے پر اپنی رائے اور ذہنی پختگی کا کھل کر اظہار کیا۔ بیشتر کا موقف یہ تھا کہ مسجد اللّٰہ کا گھر ہے ،یہ مقدس مقام محض عبادت کےلئے مختص ہے ،اس میں ان سب چیزوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ سراسر مقدس مقام کی توہین ہے اور اس واقع سے ہماری مزہبی اور اخلاقی اقدار کی پامالی ہوئی ہے۔اسی کے پس منظر میں ایک مختصر تحریر کی جسارت پیش خدمت ہے۔ ہماری فلم انڈسٹری بڑے عرصے سے زبوں حالی کا شکار ہے ،وجوہات چاہے جو بھی ہوں لیکن فلحال عوام کی ترکی سیریز میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کی وجہ سے سارا الزام عوم پر ڈالا گیا ۔ کبھی اپنے معیار پر توجہ ہی نہیں دی گئی اور نہ ہی عوام کی دلچسپی کو مدنظر رکھا گیا ،حضرت پھر اب شکوہ کیوں؟ ڈرامہ اور فلم انٹرٹینمنٹ کےلیے ہوتے ہیں،لوگ اپنی تھکاوٹ اور گھریلو مسائل سے چند گھڑی ذہن بٹانے کےلیے یہ سب دیکھتے ہیں۔
اگر آپ کے ڈرامے میں بھی یہی رونا دھونا یا مظالم دیکھائے جائیں تو کون ایک نیا درد سر لینا چاہے گا۔ جب نیا نیا ترکی کا سپر ہٹ ڈرامہ سیریل نیشنل ٹیلی ویژن پر چلنا شروع ہوا تو اس کی مخلافت میں کئی نامور ہدایت کار اور اداکار سامنے آئے، عوام کو ہوا تو کچھ بھی نہیں لیکن یہ نامور ہستیاں اپنا مقام ضرور کھو گئیں ۔ اب تو ان کے اکثر ڈرامے سماجی اور اخلاقی دائرہ کار سے بھی باہر ہوتے جا رہے ہیں ۔میری نظر سے ایک پوسٹ گزری جس میں لکھا ہوا تھا کہ کوئی بھی ٹی وی چینل لگائیں ،کہیں پہ سسر بہو پہ عاشق ہے ،تو کہیں بہن بہنوئی پہ اور کہیں بہنوئی سالی پہ۔کیا یہ ہے ہماری انڈسٹری کا معیار،یا ہماری ثقافت ؟
شاید یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کہانی اور پلاٹ نیا چاہتے ہیں تو جناب ایسا نہیں ہے، ہمیں کہانی تو نئی واقعی چاہیے لیکن اخلاقیات پر مبنی تاکہ ہم اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکیں ۔ جب بھی کوئی غلط سین فلمایا جاتا ہے تو ہم بھولی عوام ان اداکاروں پر ٹوٹ پڑتے ہیں جن پر وہ سین فلمائے گئے ،جبکہ اصل مجرم تو پردے کے پیچھے چھپا ہوتا ہے اور اکثر چھپا ہی رہتا ہے، کبھی تو یہ اس ڈرامے کا مصنف ہوتا ہے اور کبھی پروڈیوسر، ڈائریکٹر جو پس پردہ ایسے اخلاقیات سے بے بہرا ڈراموں کی تخلیق کا باعث بنتے ہیں ۔
جبکہ ہم انہی پر پل پڑتے ہیں جو ہمیں سامنے دکھائے جاتے ہیں۔اوپر سے تو پانی کا بھی نہیں پتہ چلتا کہ اندر گہرائی کتنی ہے،سمندر پال رکھا ہے یا معمولی سا تالاب۔ گہرائی میں اتریے، گہرائی جانیے،معاملہ چاہے ذاتی زندگی کا ہو یا کسی انڈسٹری کا۔
0 تبصرے