کہتے ہیں غالب جسے اردو ہی کا شاعر تھا
زباں پر ستم ڈھا کر شاعر پہ کرم کیوں ہے
صبح تہترواں یومِ آزادی ہے ۔ ہمیں آزادی حاصل کیے اتنے سال بیت گئے لیکن ہم نے آزادی حاصل کہاں کی ہمیں تو آباواجداد سے تحفے میں ملی ہے اور تحفوں کی قدر و قیمت وصول کرنے والے کہاں جانیں۔ہمارے بزرگوں نے ایک ایک قربانی پر یہ سوچ کر صبر کیا ہو گا کہ ہماری نسلیں آزاد ہوں گی ۔ وہ جو کرنا چاہیں گے کرنے کا حق رکھتے ہوں گے ۔ کسی باپ نے اس جدوجہد میں جب ایک بیٹا کھویا ہو گا ،چشم نم ہو گی پھر خیال آیا ہو گا کہ دنیا یہاں ختم نہیں ہوئی ۔ کئی نسلیں کی بقا باقی ہے ۔ ابھی بہت ہمت کی ضرورت ہے ۔ پھر نم آنکھ میں امید کے دیے روشن ہوئے ہوں گے۔ ان آنکھوں میں دھوپ چھاوں کا وہ منظر کتنا خوبصورت ہو گا۔ سوچتے ہوں گے کہ ادارے اپنے ہوں گے ۔ حکومت اپنی ہو گی ۔لوگ اپنے ہوں گے ۔سب بھائیوں کی طرح ہوں گے ۔ایک دوسرے سے بولتے ہوئے سوچتے ہوں گے کہ زبان بھی اپنی ہی بنائیں گے ۔کتنے خواب دیکھیں ہوں گے اور انہی خوابوں اور امیدوں کی روشنی میں منزل کا پتہ ڈھونڈا ہو گا۔ سب نے خوبصورت خوابوں کے زیر اثر آخری سانس تک یہ جنگ لڑی ہو گی ۔ کون جانے منزل تک کتنے راہی پہنچ پائے ۔ جتنی قربانیاں ہم نے سنیں یہ تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ کئی نامعلوم قربانیاں ہوں گی جن کا کہیں نام و نشاں نہیں لیکن ایک واحد ذات جانتی ہے کہ کس نے کس حد تک جدوجہد کی۔ خدا ان سب کی قربانیاں قبول کرے ۔آمین!
اب ذرا ملاحظہ فرماتے ہیں آج کے پاکستان کی حالت جو کبھی کسی کا خواب ہوا کرتا تھا تو کسی کے جینے کی وجہ اور کبھی کسی کی منزل امید اور روشنی۔ ہم نے اتنے لاڈلے اور محبوب ملک کے ساتھ کیا سلوک کیا۔
ہمارے نظامِ تعلیم کا معیار کیا ہے۔ ہمارے ادارے اپنا کام کتنی زمہ داری سے کرتے ہیں ۔ ہماری حکومت اپنی عوام کے ساتھ کتنی مخلص ہے اور سب سے بڑھ کے ہم خود اپنی ذات اور اپنے کام کے ساتھ کتنے مخلص ہیں۔ سب سے بڑھ کے ہم نے اپنی زبان اردو کے ساتھ کیا کیا۔ ہم اردو بولتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ لوگ ہمیں اردو بولتے ہوے سن کر جاہل سمجھیں گے۔ ظلم یہ کہ ہم نے کسی کی تعلیم کا معیار جانچنا ہو تو اس کے علم کا موازنہ اس کی فرفر انگریزی بولنے سے کرتے ہیں۔ ہم آزاد ہو کر بھی انگریزوں کی محتاجی کرتے ہیں ۔ شاید ہمارے ذہن ان کو اپنا رول ماڈل مانتے ہیں ۔ ہم ان کے جیسا بول کے فخر محسوس کرتے ہیں ۔ہمارا اوڑھنا بھی ان کی نقل ہے اور بچھونا بھی۔ہم ان کے جیسا کھاتے ہیں اور انہی کی طرح کھاتے ہیں۔ نقال قومیں کبھی ترقی نہیں کر سکتیں۔ ہماری قومی زبان کی پستی کا عالم یہ ہے کہ بچے غالب کے مزار کے بارے میں واقف نہیں ہیں۔مزار تو بہت دور کی بات کچھ بچے سرے سے غالب کو ہی نہیں جانتے ۔ ہمارا یہ رویہ ہماری ہماری قوم ،ہماری ذات کا نقصان ہے۔ اسی حوالے سے اردو زبان کا بڑا مشہور و معروف محاورہ ہے کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھول گیا ۔
0 تبصرے