عرب کے لیے موت ہے۔ نبی ِپاک حضرت محمد ﷺ کی حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ”فتنوں کا دور شروع ہوگاتو عرب برباد ہو جائیں گے“۔


ویل للعرب“کل اپنے مسلمان بھائیوں کی پیٹ میں چھرا گھونپتے ہوئے امریکا ااورمسلمان دشمن مسلم ملک مصر کی ثالثی سے متحدہ عرب امارات نے اسلام اور مسلمانوں کے ازلی اور مشترکہ دشمن اسرائیل کو نا صرف تسلیم کیا بلکہ اُن کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان بھی کیا۔ اس معاہدہ پر دستخط کرنے کی تقریب کے دوران اسرائیلی ترجمان نے کہا کہ جو اسلامی ملک بھی اس طرح ہمارے ساتھ معاہدہ کرے گا اس کے شہریوں کو بیت المقدس پر جانے کی اجازت ہوگی۔جیسے بیت المقدس ان کی جاگیر ہو جس پر وہ ہم مسلمانوں کو جانے کی اجازت دیں گے ایک تو ہماری چیز پر قبضہ اوراوپر سے سینہ زوری۔ اور دوسرا یہ کہ مسلمانوں کو مرعوب کرنے کی کوشش کہ جو ملک ہم سے دوستی کرے گا تو ہم اسے بیت المقدس آنے کی اجازت دیں گے۔
اس معاہدے کو عرب کے باپ امریکا نے بہترین قرار دیا ہے جبکہ فلسطین اور ایران نے اس فیصلے کو مسترد کیا ہے اور شدید الفاظ میں اس کی مذمت کی ہے۔بطور ِحق گو شہری اور مسلمان متحدہ عرب امارات کے اس فیصلے کی جتنی مزمت کی جائے وہ کم ہے۔ یہ تو تھا حالات کا ایک نقشہ اب اگر ہم اس فیصلے کو حالات اور اعداد وشمار کے تناظر میں دیکھتے ہوئے تجزیہ کریں۔سب سے پہلی بات یہ ہے کہ عرب امارات کو ایسی کونسی مزکل پیش آگئی تھی جس پر انھیں فوری طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرناپڑے۔ 
اگر ہم امارات کی معاشیت کا جائزہ لیں تو ناتو انھیں اسرائیل سے کسی قسم کی امداد کی ضرورت تھی اور نا ہیں ان کی معاشیت اتنی کمزور تھی کہ انھیں اسرائیلی انوسٹمنٹ یا اپنی مصنوعات اسرائیلی منڈی میں بیچنے کی کوئی ضرورت تھی کیونکہ متحد عرب امارات سمیت کوئی عرب ملک اپنی ذاتی بڑی مصنوعات بناتی ہیں۔ نا ہی امارات کاکسی ملک کے ساتھ کوئی تنازعہ ہے کہ انھیں اسرائیلی ہتھیار خریدنے کی ضرورت تھی۔ تو پھر ایسی کون سی مجبوری تھی کہ متحدہ عرب امارات کو اسرائیلی کے ساتھ بھائی چارے کے تعلقات قائم کرنا پڑ گئے۔ اگر آپ مسلمان ہیں اور زندہ ضمیر رکھتے ہیں تو جو بات آپ کو بتانے جا رہا ہوں۔یقینا آپ کا سر شرم سے جھک جائے گا۔متحد عرب امارات نے اتنی مضبوط معشیت کے باوجودمحض امریکی اور اسرائلی خوف سے کہ کہیں امریکا ہماری مخالفت کر کے ہماری معشیت کو کمزورے نا کرے اور اسرائیل ایک بار پھر اگر عرب اسرائیل جنگ کا  آغاز کرے تو  ہم اس سے محفوط رہیں چاہے اسرائیل ہمارے برادر ملکوں پر قبضہ کرکے ہماری سرحد پر آ بیٹھے۔ اگر دیکھا جائے تو اسرائیل ہمیشہ سے مسلمانوں کا دشمن رہا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ جب گریٹر اسرائیل کے نقشے پر کام ہوگا اور بل فرض پاکستان اور ترکی کی موجودگی کے باوجود اسرائیل دیگر ملکوں پر قبضہ کرتے ہوئے جب متحدہ عرب امارات کی سرحد پر پہنچے گا تو کیا وہ اپنے مذہبی اور سیاسی نظریے کو پسِ پشت ڈال کرنعرہ لگائے گا عرب اسرائیل کی دوستی خلیج عرب سے گہری اور گولان سے بلند ہے اور پھر واپس لوٹ جائے گا۔ اس سے بڑی عرب کی کیا خام خیا لی ہوگی اگر وہ یہ سوچتے ہیں تو۔
اس دوستی کی پیچھے اسرائیل کا ایک ہی مقصد ہے جس طرح مصر اسرائیل کی سرحد کو محفوظ بنائے بیٹھا ہے اور کسی دوسرے مسلمان ملک کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے اسرائیل پر حملہ کرنے نہیں دیتا بالکل اسے طرح جب اسرائیل اپنے مخالف با ضمیر عرب ممالک پر حملہ آور ہوگا تو امارات جیسا مظبوط ملک اسرائیل کے مخالف ان کی کوئی مدد نا کرے۔یہ شراب،تلور اوربیلے ناچ کے دلدادہ عرب حکمران کیا یہ نہیں جانتے کہ ان کی اپنی کوئی فوج تک نہیں ہے اور اسرائیل اور یہود کا نظریہ مدینہ پر قبضہ کرنے کا ہے۔ کیا یہ حکمران اتنا جاننے سے بھی قاثر ہیں کہ اگر ہمیں اپنا وطن یاد آسکتا ہے تو کیا یہودی مدینہ و خیبر کو بھول گئے ہوں گے جہاں سے انھیں معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے پر نکالا گیاتھا کیا یہ غافل بدو اتنا بھی نہیں جانتے کہ جب یہودی مدینہ کی طرف آئیں گے تو ہمیں اپنی حفاظت کے لیے مظبوط اور پر ہمت فوج کی ضرورت پڑے گی۔
اگر ہم اس نئے معاہدے پر پاکستان کی بات کریں تو ہمیں یہ جان کر بہت حیرانی ہوگی کہ ابھی تک پاکستان اس معاملے پر بالکل خاموش ہے جس کی سب سے بڑی وجہ جو سمجھ میں آرہی ہے وہ یہ کہ پاکستان کے مزدوروں کی بڑی تعداد امارات میں کام کرتی ہے۔اور دوسری وجہ متحد ہ عرب امارات سے ملنے والے قرضے ہیں۔ لیکن پاکستانی حکومت کے برعکس پاکستانی عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ امید ہے پاکستان تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر حق،سچ اور اپنی عوام کی رائے کو مدِ نظر رکھ کر جلد ردِ عمل کا اظہار کرے گا