اقوامِ عالم میں اس وقت شدید کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کا توازن  ڈگمگاہٹ کا شکار ہے۔ پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر او آئی سی کا اجلاس بلانے کی درخواست دی تھی.


 جس کی تاحال منظوری نہیں ہو سکی۔ او آئی سی میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ کا حامل  سعودی عرب ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر سعودی عرب نے تاحال اپنی پالیسی واضح نہیں کی۔ سعودی عرب کا  اس معاملے میں کردار ہمیشہ مشکوک رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل سعودی فرمانروا شاہ سلمان  بن عبد العزیز نے بھارتی پردھان منتری نریندر مودی  کے سعودی عرب کے دورے پر ان سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں اعزاز سے نوازا  جس سے مسلم امہ بالخصوص پاکستانی مسلمانوں کی شدید دل آزاری ہوئی۔ اس پر تمام مسلمانوں کا فطری ردعمل شدید تھا۔ سعودی عرب ہمیشہ سے امریکہ کا ساتھ دیتا آ رہا ہے۔ چونکہ بھارت کو بھی امریکہ کی کھلم کھلا پشت پناہی حاصل ہے اس لیے سعودی عرب کا جھکاؤ انڈیا کی طرف ہے۔ امریکہ اور چین کئی محاذوں پر ایک دوسرے کے  آمنے سامنے کھڑے  ہیں ۔

دونوں ممالک دنیا بھر بالخصوص ایشیاء میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی تگ و دود کر رہے ہیں۔اس ضمن میں سعودی عرب امریکہ کا بھرپور ساتھ دے رہا ہے۔ واضح رہے کہ سعودی عرب اس سے قبل مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے انڈین آئین میں  آرٹیکل 370 کے خاتمے کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے اس پر کوئی بھی رائے دینے سے انکار کر چکا ہے۔ کئی بار سعودی عرب پاکستانیوں کےجزبات کی بری طرح توہین کر چکا ہے۔ موجودہ حالات میں شاہ محمود قریشی صاحب نے کہا کہ او آئی سی کا اجلاس نہ ہونے کی صورت میں وزیراعظم پاکستان سے  یہ مطالبہ کرنے پر مجبور ہو جاؤں گا کہ مقبوضہ کشمیر پر  ہمارے مؤقف  کی حمایت کرنے والے ممالک کا اجلاس بلایا جائے۔ وزیر خارجہ کے اس تنقیدی تبصرے کے بعد سعودی عرب نے ردعمل دیتے ہوئے 2018 میں پاکستان کو دیے گئے 3.2 ارب روپے قرض میں سے ایک ارب ڈالر  واپس کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ اس قرض کی عدم ادائیگی پر  رواں برس کے مئ سے سعودی عرب نے پاکستان کو  ادھار تیل کی فراہمی معطل کر دی ہے۔ 

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی حکومت واضح طور پر امریکہ کی ایما پر بھارت کا ساتھ دے رہا ہے اور ہمارے ساتھ یہ سلوک کر رہا ہے۔ شاہ محمود قریشی کے اس شدید بیان اور اس پر سعودی حکومت کے ردعمل کی وجہ سے حکومت شدید دباؤ کا شکار ہے۔ شاہ محمود قریشی کے اس بیان پر بعض حلقوں نے  انہیں انتہائی تنقید کا نشانہ بھی بنایا  ۔ان کا کہنا تھا کہ اس سے حکومت  کو قرض کی واپسی پر دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔  اس سب کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات انتہائی ڈانوں ڈول ہیں۔ساتھ ہی پوری دنیا میں سفارتی تعلقات نیا رخ لے رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس سے نئے تعلقات جنم لیں ۔سعودی عرب کو عالم اسلام میں انتہائی اہمیت حاصل ہے لیکن  سعودی عرب  اپنے اس رویّے سے عالم اسلام میں اپنا مقام کھو رہا ہے۔ مقبوضہ وادی پاکستان کی  شہ رگ ہے۔ اس پر  پاکستان نہ تو کوئی دباؤ  برداشت کرے گا اور نہ اپنی جدوجہد سے دستبردار ہو گا

 ۔