مقبو ضہ کشمیر میں بھارتی بربریت اور و جارہیت کو 70 برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔لیکن ہر ظلم پر تحریکِ آزادی کم ہونے کی بجائے تیزی اختیا ر کرتی جا رہی ہے۔ 2016میں برہان الدین وانی کی شہادت کے بعد آزادی کے لیے تحریک نے اب جو شدت اختیار کی اس نے شر پسند مودی کے اوسان خطا کر دیے ہیں۔ 5اگست2019 کے بعدشروع ہونے والے مظاہروں کو روکنے کے لیے ہزاروں افراد کو شہید کیا جا چکا ہے۔
یورپی یونین، امریکا و دیگر اقوام بھی اب بھارت میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں پر تنقید کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ بھارت عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔ امریکا اور اسرائیل بھی چین کے خلاف بھارت کی حمایت نہیں کر رہے ایسے ممالک جن پر مودی حکومت نے اپنی نوازشات کرتے ہوئے منڈی کے دروازے کھول دیئے وہ بھی خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔مودی کی جارحانہ پالیسیوں کے باعث بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے قریب تر پہنچ چکا ہے۔ ایک طرف کشمیر بھارتی ہاتھ سے نکل چکا ہے تو دوسری طرف لداخ، نیپر اور ارونا چل پر دیش پر چین نے قبضے کا دعویٰ کر دیا ہے سکم پرچینی قبضے کے بعد بھارت کی ۷ ریاستوں کو آزادی حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ خالصاتان تحریک بھی اب زوروں پر ہے۔اور اس مرتبہ یوں دکھائی دے رہا ہے کہ سکھ برادری آزاد ملک ”خالصتان“بنا کر ہی دم لیں گے رفتہ رفتہ بھارت کا اپنے علاقوں سے دستبردار ہونا اس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے بھارت نے ایران میں چاہ بہار بندرگاہ سے سڑک اور ریل کا منصوبہ ایران افغانستان سے روسی ریاستوں اور وہاں سے یورپ جانے کے لیے بنایا تھا۔جس کا بڑا مقصد افغانستان میں داخل ہونا اور یہاں قدم جماکر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کاروائیاں کرناتھا مگر اب مودی حکومت کا وہاں دوبارہ قدم جمانا نا ممکن ہو چکا ہے کیونکہ چین نے ایران سے پچیس سالہ معاہدہ کر لیا ہے بھارت،نیپال، بھوٹان،اور سری لنکا سے بھی تنازعات سے گھرا ہوا ہے سری لنکا کی نئی حکومت بھی بھارت سے کیے ہوئے تمام معاہدوں کو ختم کر رہی ہے۔ سری لنکن وزِیر اعظم چین کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے خواہش مند ہیں۔ بیجنگ پہلے ہی سری لنکا میں بندر گاہوں پاور اسٹیشنوں اور ہائی ویز کی تعمیر کر چکا ہے۔جو ایشیاء بھر میں اس کے ٹریڈ ایند ٹرانسپورٹ منصوبے کا حصہ ہیں۔ان سارے حالات میں سب سے مشکل وقت جو مودی حکومت پر آن پڑا ہے وہ اپوزیشن اور عوام کی طرف سے جواب طلبی ہے۔ لداخ پر چینی قبضہ اور بھارتی فوجیوں کی ہلاکت پروزیر ِ اعظم مودی کی خاموشی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ جدید ترین اسلحہ سے لیس بھارت کی اتنی بڑی فوج نے چین کا مقابلہ کیوں نہیں کیا؟ بھارتی فوج نے مار بھی کھائی اور علاقہ بھی گنوا دیا اگر بھارتی فوج کی کارگردگی یہی ہے تو پھر اتنے بڑے دفاعی بجٹ کی کیا ضرورت ہے؟ کیا بھارتی فوج کشمیر،مشرقی پنجاب، آسام،گورکھا لینڈ،میزو رام، ناگا لینڈ اور دیگر ریاستوں میں نہتے مسلمانوں، سکھوں اور دوسری اقلیتوں کے خلاف ہی رعب و دبدبہ دکھا سکتی ہے۔ حکومتِ پاکستان نے ہر سیاسی اور سفارتی محاذ پر کشمیریوں کے حق خودارادی کا ساتھ دینے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔اب جو پاکستانی اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق نیا نقشہ جاری کیا گیا ہے اس سے جہاں مسئلہِ کشمیر کے فوری حل کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ وہیں سفارتی طور پر یہ ایک اچھا اور کامیاب قدم ہے کیونکہ بھارتی ظلم و ستم کے خلاف کشمیریوں کی آواز تمام دنیا کے دارلحکومتوں میں گونج رہی ہے نئے نقشے میں بھارت کے زیرِانتظام کشمیر، آزاد کشمیر، گلگت، بلتستان،سر کریک، جونا گڑھ اور مناؤ دار کوسرکاری طور پر پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔اور اب یہ نقشہ تمام اداروں اور کالجوں، سکولوں میں بھی استعمال ہوگا۔ پاکستان سے مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ ظاہر کرنے کے ساتھ اس بات کی تو صیح بھی کر دی گئی ہے۔ کہ اس متنازعہ علاقے کے بارے میں آخری فیصلہ کشمیری آعوام ہی اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کریں گے بھارت نے اپنی شکست کو یقینی سمجھتے ہوئے ہمیشہ رائے شماری کی مخالفت کی اور اب کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی سازش کر ہا ہے تاکہ انھیں بھی فلسطینیوں کی طرح وطن بدر کر دیا جائے۔پاکستان نے بھارتی نقشے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے اپنے اس دعوے کو دوبارہ پوری قوت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے کہ تقسیمِ ہند کے فارمولے کے مطابق ایک اکثریتی مسلم ریاست ہونے کے باعث کشمیر واضح طور پر پاکستان کا حصہ ہے جس کے تمام قدرتی راستے اور دریا پاکستان آتے ہیں۔یاد رہے کہ مودی حکومت نے گزشتہ برس جس طرح خود اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آرٹیکل ۰۷۳ اور ۵۳ اے کو تبدیل کر کے بھارت کا نیا نقشہ جاری کیا تھا اس میں کی قرار دادوں کو ردی کی حیثیت دیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر،گلگت اور بلتستان کوبغیر کسی قانونی جواز کے بھارت کا حصہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن مقبوضہ کشمیر کے عوام نے ”بنیئے“ کی اس چال کو مکمل طور پر مسترد کر دیا مقبوضہ وادی میں بھارت کی نو لاکھ سے زائد فوج نہتے کشمیریوں پر بد ترین مظالم ڈھا رہی ہے ہزاروں افراد کو صرف اپنے حقِ آزادی کو طلب کرنے کے جرم میں شہید کیا جا چکا ہے کرفیو میں توسیع کے لیے اب کرونا کو جواز بنایا جا رہا ہے۔ امریکا اور اقوامِ متحدہ پوری دنیا میں انسانی حقوق کی بحالی کا نعرہ بلند کیے ہوئے ہیں لیکن کشمیر کی خون آلود جھیلیں، جلتے چنار، بلکتے بچے،چیختی عورتیں، گمنام قبریں،سنسان بازار، نعشوں سے بھری گلیاں اور ویران بازار انسانی حقوق کے علمبرداروں کا منہ چڑا رہے ہیں یہاں یہ کہنا بھی بیجاہ نا ہوگا کہ امریکا اور اقوامِ متحدہ دونوں کشمیر میں ہونے والے مظالم میں برابر کے شریک ہیں۔کشمیری عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے بچے بوڑھے اور جوان اب بھارتی فوجیوں کے سامنے سینہ تان کر باغیانہ لب و لہجے میں گفتگو کر رہے ہیں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مراشل لاء سے بھی بد تر صرتحال پیدا کر رکھی ہے ریاستی آئین و قانون معطل اور انسانی حقوق کی پامالی عروج پر ہے جتنی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے کی جارہی ہیں شاید اتنے بدترین واقعات قبل از تاریخ بھی رونما نہیں ہوئے ہونگے۔پائلٹ گنوں کے استعمال سے سینکڑوں افراد کی بینائی ختم کی جارہی ہے تعلیمی اداروں کی عمارتیں تباہ کرکے چادر چاردواری کا تقدس پامال کیا جا رہا ہے درندہ صفت بھارتی فوج کشمیر میں خواتین کی آبرو ریزی میں مصروف ہے۔ مودی سرکار نے نا صرف مقبوضہ وادی میں گزشتہ ایک سال سے لاک داؤن جاری رکھ کر کشمیریوں کو انکے گھروں میں محصور اور زندہ درگور کر رکھا ہے۔بلکہ ایل او سی پر روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کی چیک پوسٹوں اور ملحقہ شہری آبادیوں پر بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کر کے عملاََ جنگ مسلط کرنے کی بھی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ بھارت مظالم کے پہاڑ توڑ کر مقبوزہ کشمیر کے عوام کے جزبہ ِ آزادی کو سرد نہیں کرسکا۔مودی آزادی اظہارِ رائے پر پابندی لگا کر کشمیریوں کے اندر جزبہ ِ حریت کو ختم نہیں کرسکتا ”ظلم رہے اور امن بھی ہو“کے مصداق کشمیر میں گولی لاٹھی اور کرفیو کے ذریعے جزبہ ِ آزادی کو دبانے کی بھارت سرکار کی تمام کوششیں کشمیری عوام ناکام بنا رہے ہیں بھارت کے اوچھے اور ظالمانہ ہتھکنڈوں کے باوجود دنیا بھر میں پھیلے کشمیری عوام نے عالمی فورم کے دروازے کھٹکھٹا کر اور عالمی قیادتوں کے ضمیر جھنجھو ڑ کربھارتی مظالم اور عزام سے آگاہ کیا۔اور اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قرار دادیں یاد دلائیں جب کہ پاکستان نے قدم قدم پر کشمیریوں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کا ساتھ دیا اور سلامتی کونسل اور یورپی یونین، او آئی سی سمیت تمام نمائندہ عالمی اور علاقائی فورمز پر پاکستان اور کشمیر کا کیس پیش کیا ہے وزیرِ اعظم عمران خان کی زیرِ قیادت حکومتِ پاکستان،پوری قوم،سیاسی اور عسکری قیادتوں نے آج جس طرح یکسو اور یکجہت ہو کر کشمیریوں کی آواز کے ساتھ آواز ملاتے ہوئے بھارتی توسیع پسندانہ عزائم بے نقاب کیے ہیں اس سے یقینا عالمی ضمیر بیدار ہو چکا ہے اور ”کشمیر بنے گا پاکستان“کا نعرہ چار دانگ عالم میں گونجتے ہوئے کشمیریوں کی آزادی کی منزل بھی قریب لے آئے گا یہاں ضرورت اس امر کی بھی ہے عالمی قیادتیں مصلحتوں کے لبادے کو اتار کر کشمیر ی عوام کو ظالم بھارت سے استواب کا حق دلانے کے لیے مؤثر اور ہنگامی بنیادوں پر کردار ادا کریں ورنہ بھارتی جنونیت علاقائی امن کے ساتھ ساتھ عالمی امن کو بھی نیست و نابود کر دے گی۔
0 تبصرے