کراچی میں آبادی جتنی زیادہ ہے مسائل اس سے دو گنا زیادہ ہیں۔ ہر دور حکومت میں کراچی کے مسائل نظرانداز کیے گئے۔ وفاقی حکومت نااہلی کا سارا ملبہ صوبائی حکومت پر ڈال کر کنارہ کشی اختیار کر لیتی ہے اور صوبائی حکومت ہمیشہ فنڈز کی کمی یا عدم فراہمی کا رونا روتی رہتی ہے۔ اس کھینچا تانی میں عوام کے مسائل جوں کے توں پڑے رہتے ہیں۔ کراچی شہر میں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ۔


 پانی کے نالے گندگی کے ڈھیروں سے لبالب بھرے پڑے ہوتے ہیں ۔اگر زرا سی بارش آ جائے تو پورا کا پورا شہر پانی میں ڈوب جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بجلی اور گیس کی  لوڈ شیڈنگ حد سے سوا ہے۔ لوڈ شیڈنگ غیر اعلانیہ اور بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کراچی میں بجلی کی فراہمی کا زمہ کے الیکٹرک کے سپرد ہے ۔ عوام کئی بار اس کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروا چکی ہے لیکن عوام کی  شنوائی کہیں نہیں ہوئی۔ اب تو کے الیکٹرک کے خلاف اپوزیشن اور حکومت دونوں ارکان متحد ہو چکے ہیں لیکن یہ حکومی اختیار سے بھی باہر کی بات نظر آتی ہے۔ 
برساتی نالے برسات  کی نوبت سے پہلے ہی کوڑے کے ڈھیر سے بھر جاتے ہیں۔  کئی بار انتظامیہ اور عوام نے مل جل کر نالوں کی صفائی کا بیڑا اٹھایا جو صرف  وقتی طور پر فائدہ مند ثابت ہوتا ہے ۔ ایک بڑا مسئلہ نالوں پر بنے تجاوزات ہیں ۔ کئی ضمیر فروش نالوں کی سرکاری زمین بھولے بھالے لوگوں کو بیچ دیتی ہے جس سے اس کے کنارے کچی آبادیوں کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے۔ ہر اپوزیشن جماعت ووٹ لینے کے لیے کراچی کی صفائی کا نعرہ بلند کرتا ہے اور کامیابی کے بعد کراچی کی عوام سے لاتعلقی کا اعادہ کرتا ہے۔ گزشتہ ہفتے سے تمام انتظامیہ اور اپوزیشن مل کر متوقع مون سون کی بارشوں سے پہلے نالوں کی صفائی مکمل کرنے کا مشن جاری رکھے ہوئے تھی ۔  تاہم آج کے روز کراچی میں جب صبح آٹھ بجے سے دوپہر دو بجے تک بارش کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا تو سارا شہر پانی میں ڈوب گیا  

اور شہر کے اکثر علاقے جن میں کئی پوش علاقے بھی شامل ہیں ، زیر آب آ گئے۔ پورا شہر اربن فلڈ کا شکار ہو کے رہ گیا ہے ۔ گجر نالہ بپھر گیا اور اس کے رہائشیوں کو ایک سکول میں پناہ لینی پڑی ۔ شہر میں  نکاسی آب کا کوئی فوری راستہ نہیں ہے ۔ گاڑیاں پانی نیں ڈوب گئی ہیں لوگ ڈوب کے جاں بحق ہو رہے ہیں۔ لوگوں کے گھروں میں پانی داخل ہو گیا ہے۔ عوام کا سارا سامان پانی کی نظر ہو چکا ہے ۔ لوڈ شیڈنگ اور شہر بھر میں خستہ حال اور ننگی  تاروں کا جال بچھا ہوا ہے ۔لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے کھانا پکانا اپنے آپ میں ایک محاذ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
مرکزی شہرائیں پانی میں ڈوب گئی ہیں ۔ کسی کی گاڑی پانی میں بہہ گئی ہیں۔ غرض پورا شہر تالاب کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ شہر کی صورت حال دیکھ کر کوئی یقین نہیں کر سکتا کہ یہ روشنیوں کا شہر ہے۔ موسم کا حال بتانے والے کہتے ہیں کہ یہ بارش ریکارڈ توڑ تھی۔ ابھی مطلع صاف ہونے کے کوئی آثار نہیں۔ مشید بارشیں متوقع ہیں ۔ عوام اور حکومت کو تیار رہنا چاہئیے۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق وزیراعلی سندھ نے  رین ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا ۔جس کے تحت تمام سرکاری محکموں کے ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئیں ۔ ایمرجنسی بنیادوں پر حالات کو قابو میں لانے کی کوشش کے جائے گی۔ وزیراعظم پاکستان نے بھی فوری طور پر کراچی کی عوام کے مسائل دور کرنے کی ہدایت کر دی۔