آج 26 اگست ہے اور بلوچستان کی تاریخ کا ایک تاریک دن ہے۔ بارہ سال قبل اسی تاریخ کو جبری نظام کے تحت ایک نڈر اور بہادر لیڈر نواب اکبر بگٹی کو شہید کیا گیا۔ اس واقعے کو بارہ سال بیت گئے لیکن بلوچ قوم کےلئے یہ زخم روز اول کی طرح تازہ ہے ۔ یہ ایک ایسا نہ ختم ہونے والا زخم ہے جو کبھی مندمل نہیں ہو گا۔ نواب اکبر خان بگٹی صرف ایک روایتی قبائلی سردار ہی نہیں تھے بلکہ  پڑھے لکھے ،باشعور نڈر اور دلیر سیاسی رہنما تھے۔



ان کی للکار دشمن کےلیے ایک کاری وار کا کام کرتی تھی۔ انہوں نے  ظلم کے خلاف تا دمِ زندگی آواز بلند رکھی اور لڑتے رہے۔ ان کی شہادت کے پیچھے گھنائونے مقاصد کار فرما تھے۔ ان کے دور میں پانچویں بلوچ بغاوت نے سر اٹھایا ۔ بلوچوں کی بغاوت اور حکومت پر ان کے عدم اعتماد کی ایک طویل داستان ہے۔ بلوچستان میں  حکومت نے بلوچ قوم پر کئی طرح کے ستم ڈھائے جن میں سر فہرست بنیادی حقوق کی حق تلفی تھی۔ یونہی کوئی باغی نہیں ہو جاتا ۔ حالات اور واقعات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ سر پر کفن باندھ کر باغی بننا پڑتا ہے۔ صوبہ بلوچستان میں سہولیات کی عدم دستیابی کے حالات یہ ہیں کہ سوئی جو پورے پاکستان کو گیس فراہم کرتا ہے جہاں سے کئی کلومیٹر کی گیس پائپ لائنیں پورے پاکستان کو جاتی ہیں وہ علاقہ خود گیس کی سہولت سے اول روز پچھلے دو ڈھائی سال تک  محروم رہا۔تعلیم کا فقدان اور غربت کی فراوانی ہے۔ 
پینے کو صاف پانی میسر نہیں ۔ جانور اور انسان ایک ہی جوہڑ سے  پانی استعمال کرتے ہیں ۔

 ایسے ہی کئی محرومیاں جن سے انسانیت شرمسار ہو جائے ،بغاوت کا سبب بنتی ہیں۔ ۔ایسی بغاوتیں نواب اکبر بگٹی کے دور میں عروج پر تھیں کیونکہ ظلم سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ نواب اکبر بگٹی نے کئی سنجیدہ اور سمجھدار اقدام اٹھائے جن کی آج تک عوام معترف ہے ۔ 2002 میں گودر میں کئی ہاؤسنگ کالونیاں بنانے کا اعلان کیا گیا جن کےلئے  مقامی لوگوں سے ان کی زمینیں سستے داموں خرید کر  کراچی اسلام آباد اور لاہور کے انویسٹرز کو فراہم کی گئیں۔ بلوچ قوم میں اس سے احساس کمتری پیدا ہوئی اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ گودر پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔  ڈاکٹر شازیہ نامی میڈیکل آفیسر کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور بعد ازاں ذمہ داران کی سیاسی  پشت پناہی نے جلتی پر تیل کا کام دیا۔
نواب اکبر بگٹی کی زندگی ایک جہد مسلسل کا نام ہے۔ 

وہ پاکستان کے کئی وزرا کے عہدے پر فائز رہے ۔ انہوں نے بطور  وزیرِ اعلیٰ بلوچستان بھی فرائض سر انجام دیے۔ وہ ایک بلوچ قومیت پرست رہنما اور جمہوریت وطن پارٹی کے سربراہ تھے۔ ہر عہدے پر انہوں نے اپنے فرائض بخوبی سر انجام دیئے ۔ انہوں نے کئی اہم ملکی معاملات میں ڈٹ کر حکومت کی خلاف ورزی کی۔ ان کو اسی جرم کی پاداش میں 26 اگست 2006 میں اس غار جس میں وہ پناہ لیے ہوے تھے پر حملہ کر کے شہید کر دیا گیا۔ انہوں نے اپنی موت سے چند ماہ قبل کہ دیا تھا کہ جس جنگ کو ختم کرنے کے لیے مجھے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ جنگ میری نسلیں لڑتی رہیں گی۔ ان کا کہا سچ ثابت ہوا بلوچستان میں آج تک وہ جنگ جاری ہے اور کئی جانیں اس جنگ کی نظر ہو چکی ہیں ۔ ابھی بھی اس جںگ کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں کیونکہ اسے روکنے والے یا تو مار دیے گئے یا پھر وہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔