بھٹو دور میں جب نیشنلائزیشن کی بجلی کوندنا شروع ہوئی تو تمام بڑے کارخانہ داروں کو اپنے مال و زر کے نشیمن بچانے کی فکر لاحق ہوئی۔ نیشنلائزیشن کی چکی جب حرکت میں آئی تو گیہوں کے ساتھ گھن بھی پسا۔ اس دور میں جب بیس بڑے خاندانوں کا چرچا تھا ،جاننے والے جانتے ہیں کہ شریف فیملی کا شمار وطن عزیز کے 2 ہزار بڑے خاندانوں میں بھی نہیں ہوتا تھا جب ان کا کاروبار نیشنلائز ہوا تو یہ بیچارے دربدر ہو گئے ۔5 جولائی 77ء کے بعد جنرل ضیاء الحق اس ملک کے سیاسی منظرنامے پر بلاشرکت غیرے سیاہ و سفید کے مالک بن کر ابھرے ۔اس دور میں شریف فیملی فوجی جرنیلوں سے تعلقات قائم کرنے کےلیے زیر زمین اور بالائے زمیں سرگرم عمل تھی
شبانہ روز جدوجہد اور "عراق آور مساعی" کے بعد وہ جنرل غلام جیلانی کے آستانہ تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ دساوروں تحفوں ڈالیوں اور دعوتوں نے کام دکھایا ۔جنرل غلام جیلانی اور میاں شریف میں جانے انڈر ہینڈ کیا ڈیل ہوئی کہ ایک بے نام سے کاروباری خاندان نے اپنے ایک بے فکرے نوجوان کو منظم انداز میں سیاست اتارنے کا فیصلہ کیا۔اس نوجوان کا نام نامی اسمِ گرامی محمد نواز شریف تھا۔ 1980ء کے عشرے کے ابتدائی سالوں میں محمد نواز شریف تحریک استقلال لاہور کے خزانچی اور مجلس عاملہ کے رکن تھے۔ اس دور میں تحریک استقلال کے ایک مرکزی عہدیدار آصف فصیح الدین وردگ نے انہیں فوجی حکمرانوں کے قریب ہونے کا نسخہ کیمیا بتایا۔یہ انتہائی دانشمندانہ اور پیداواری لائحہ عمل تھا۔نواز شریف نے اس مختصر اور آسان ترین لائحہ عمل پر حرف بہ حرف عمل کیا ۔حسب ہدایت چند دنوں بعد وہ کشمیری برادری کے ایک اجلاس میں پہنچے ۔اجلاس کے دوران حسب روایت ایک مرکزی عہدیدار نے برادری کی فلاح و بہبود کیلئے چندہ کی اپیل کی تو محمد نواز شریف نے یک دم کھڑے ہو کر تین لاکھ کی خطیر رقم بطور چندہ دینے کا اعلان کر کے تمام حاظرین و سامعین اور معززین کو حیران و مبہوت کر دیا۔یہ چندہ نہیں تھا دراصل میدان سیاست میں مخصوص اہداف کے حصول کیلئے شریف فیملی کی پہلی باقاعدہ سرمایہ کاری تھی۔یا یوں کہ لیجئے کہ پاور پالیٹکس میں یہ ان کی اولین انٹری تھی۔اجلاس کے اختتام پر ان کی ملاقات برگیڈیئر (ر) قیوم سے ہوئی ۔
برگیڈیئر قیوم اس نوجوان کی برادری کے ساتھ محبت اور فیاضی سے اچانک متاثر ہو چکے تھے۔ چندے کا بے خطا تیر سیدھا نشانے پر لگا۔نوجوان نے لوہا گرم دیکھا تو برگیڈیئر صاحب کو اپنے گھر کھانے کی دعوت دی۔یہ دعوت بارش کا پہلا قطرہ تھا ۔بعدازاں تو دعوتوں کی موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ یاد رہے کہ اس دور میں برگیڈیئر قیوم گورنر جیلانی خان کے دست راست اور نفس ناطقہ تھے۔ یہ نفس ناطقہ شریفی فیملی کی گرفت میں آ گیا تو پوبارہ ہوتے دیر نہ لگی ۔ موصوف نے شریف فیملی کے اس نوجوان اور سربراہ کی ملاقات گورنر پنجاب غلام جیلانی سے کرا دی۔ یوں ایک فوجی اور کاروباری خاندان رفتہ رفتہ ایک دوسرے کے اس حد تک قریب آ گئے کہ معاملات من تو شہدم تو من شدی کی منازل سے بھی کوسوں آگے بڑھ گئے ۔ گورنر غلام جیلانی خان حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھے ۔یہ یار باش قسم کے انسان تھے جب کوئی ان کے حلقہ رفقاء میں داخل ہو جاتا تو اسے اپنا فہملی میمبر بنا لیتے ۔ جنرل جیلانی خان کی مشقیں شریف فیملی پر بڑھنا شروع ہوئیں اور انہوں نے تحریک استقلال لاہور کے سابق خزانچی کا پنجاب کی ایک اہم اور پیداواری وزارت کا قلمدان سونپ دیا۔وزارت ملتے ہی نواز شریف نے تحریک استقلال سے اپنے دیرینہ تعلقات یک قلم ختم کر دیئے۔اب نواز شریف کے دیوانوں سے کون پوچھے کہ کیا ان کے محبوب قائد نے 1983ء میں ایک چھوٹی سی وزارت کے حصول کے لیے اپنی مادر سیاسی جماعت سے بے وفائی اور اس کی قیادت سے طوطا چشمی نہیں کی۔کیا یہ بے وفائی اور طوطا چشمی لوٹا گردی میں شامل نہیں ۔ مقام حیرت ہے کہ یہ شخص جس کے سیاسی عروج کا نکتہ آغاز لوٹا گردی بنی اور جس نے چھانگا مانگا آپریشن ک دوران صنعت لوٹا سازی میں عالمی شہرت حاصل کی۔ بعد ازاں وہ کس منہ سے اصولی اور نظریاتی سیاست کے بھاشن دیتا ہے۔
جب جنرل ضیاء الحق کے دور میں ڈی نیشلائزیشن شروع ہوئی تو شریف برادران کے والد گرامی نے اپنے خاندان کے صنعتی مستقبل کا محفوظ تر کرنے کیلئے سیاست کو بطور ڈھال استعمال کرنے کا عزم صمیم کیا۔ وہ یہ طے کر چکا تھا می سیاست کو ایک انڈسٹری سمجھ کر اس پر بھی انویسٹمنٹ کی جائے۔ سیاست کو انڈسٹریلائز کرنے کا یہ اچھوتا منصوبہ میاں شریف مے ندرت کار ذہن کی تخلیق تھا۔ان کا یہ خیال پختہ ہو چکا تھا کہ سیاست ایک ایسی انڈسٹری ہے جس پر کم سے کم سرمایہ کاری کر کے زیادہ سے زیادہ منافع سمیٹا جا سکتا ہے۔بعد میں قومی سطح پر پیش آنے والے وقوعات حادثات اور سانحات نے یہ ثابت کیا کہ ان کا یہ خیال درست تھا۔اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا فیضان یوں سامنے آیا کہ سات سال کے مختصر عرصہ میں شریف فیملی کا شمار پاکستان میں صنعتی ایمپائرز کے چند بڑے ٹائیکونوں میں ہونے لگا۔ سیاست کو صنعتیانے کے اس جامع منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے لیے انہوں نے اپنے فرزند محمد نواز شریف کو میدان میں اتارنے کی تیاریاں کیں۔اس جوان رعنا کے اولین سیاسی اتالیقوں نے اسے پہلا درس یہ دیا
کہپاکستانی سیاست پر ایک طویل عرصہ تک کنجوس جاگیر دار سیاستدانوں کا قبضہ رہا ہے لیکن بڑے مقاصد اور اہم اہداف کے اصول کے لیے تمہیں اپنا تعارف ایک لکھ لٹ سیاستدانوں کی حیثیت سے کروانا ہے۔ بساطِ سیاست کے اس تازہ وارد نے اس نصیحت کو گرہ سے باندھ لیا۔ روکڑامیڈ یہ سیاسی نوجوان محیر العقول سیاسی جمپ لگا کر چشمِ زدن میں پاتال سے افلاک تک پہنچ گیا یہ سن پیسے کا کمال تھا۔یہ پیسہ آیا کہاں سے تھا؟ کہاں وہ دور تھا کہ دولت و امارات کے لحاظ سے ان کا خاندان پاکستان کے پہلے ۲ ہزار بڑے بڑے کاندانوں کی گرد کو بھی نا پہنچتا تھا اور کہاں یہ عہدِزریں کہ بحثیت ِ صنعت کار و سرمایہ دار وہ سہگلوں،دلیگاؤں،ہارونوں اور داوؤدوں سے بھی کوسوں آگے نکل چکا تھا۔یہ غضب کے سادہ اور قیامت کے بھولے بھالے تھے کہ اس سادگی و بھول پن کے باوجود راتوں رات کروڑ پتی سے کھرب پتی بن گئے۔اس سادگی پہ کون نہ مرجائے ائے خدا۔شرےٖ فیملی دل کی غنی ہے یا نہیں البتہ ان کایہ سپوت ہی آخر قسمت کے دھنی کیوں ہوتے ہین۔قسمت کی یہ دیوی صرف اور صرف سامری کے بچھڑوں کے پجاریوں پر کیوں فدا ہوتی ہے؟دیوارِزر کے رونوں سے حالات کا جائزہ لینے والے کوتاہ نظر بنا رکھا تھا کہ ناجائز دولت کی پیداوار سیاست کاروں کو بھی وہ پاکستان سے عشق کرنے والا سیاست دان بنا کر پیش کرتے ہیں۔
اس قوم کے بڑے المیوں میں سے ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس کے دانشور وں نے حق و صداقت کو معیار بنانے کے بجائے ذاتی اغراض اور تعصبات کو اپنا قبلہ و کعبہ بنا رکھا ہے۔جس قوم کے دانشوروں کی بے مغزی اور بے بصری کا عالم یہ ہو کہ فروری ۷۴۹۱ ء میں ۴۱ کروڑ آبادی اور ۵ کروڑ ۴۶ لاکھ ۶۹ ہزار ۳۷۷ ووٹ لینی والی جماعت اور قیادت کو بھاری مینڈیٹ قرار دے کر مہوریت کے نام پر ملک کے سیاہ وسفید کا مالک الکل اور مختارِ کل دیکھنا چا ہیے۔وہ قوم اگر سیٹالائٹ میڈیا کے اس دور میں بھی پسماندہ رہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔پیپلز مارٹی اور ن لیگ ٹائپ کے جماعتوں کے سیاست گردوں کی سیست گردی نے عواپ کو اس حد تک مایوس کیا کہ چار کروڑ ۶۷ لاکھ ۹۶ ہزار ۳۷۷ وٹرز نے ووٹ نا دے کر میدان میں موجود ان سیاسی بہروپیوں پر عدم اعتماد کیا۔ اس ناگوار صورت ِ حال کے باوجود جمہوریت کے پرستار تجزیہ نگار نہ جانے کس منہ سے نواز شریف کو بھاری مینڈیٹوی وزیرِاعظم اور رائے عامہ کا محافظ اور ترجمان کہتے ہیں
دانشوروں کو تملق اور مداہنت کا عارضہ اس قدر
0 تبصرے