بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو باسٹھ برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔  گزشتہ تین برس سے وہ پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا تھے۔ اپنے آخری وقت تک بیماری کے ساتھ لڑتے رہے اور سیاسی طور پر متحرک رہتے ہوئے اپنے فرائض بھی مستعدی سے سر انجام دیتے رہے۔ 


ان کا شمار ریاست قلات کے دور سے بلوچستان کی سیاست میں متحرک جماعت سے تھا اور وہ پہلے سویلین  گورنر میر غوث بخش بزنجو کے منجھلے صاحبزادے تھے۔ غوث بخش بزنجو کا شمار تاریخ میں  معتبر ترین رہنماؤں میں ہوتا ہے۔

اگست 1989 میں غوث بخش بزنجو کی وفات کے بعد ان کی خاندانی سیاست کی باگ ڈور ان کے بڑے صاحبزادے بزن بزنجو نے سنبھالی ۔ 1990 کے انتخابات میں بزن بزنجو دو حلقوں این اے 205 اور 207 سے منتخب ہوئے تو قواعد کی رو سے انہیں ایک سیٹ چھوڑنی پڑی۔ پھر  ان کے چھوٹے بھائی حاصل بزنجو این اے 205 کے ضمنی انتخابات میں  پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ یہاں سے ان کی سیاست کا باقاعدہ آغاز ہوا۔  اسی نشست پر 1997 میں وہ دوبارہ منتخب ہوئے ۔ رفتہ رفتہ بزن بزنجو سیاست سے کنارہ کشی کرتے گئے اور خاندانی سیاست کی باگ ڈور ان کے گھر سے حاصل بزنجو کو منتقل ہوتی گئی۔
1998 میں میر حاصل نے بلوچستان نیشنل پارٹی کو الوداع کہا اور  بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ دو ہزار تین میں اس سیاسی جماعت نے بلوچستان نیشنل پارٹی جس کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک تھے ،کے ساتھ الحاق کر لیا اور دونوں جماعتوں کے اس الحاق سے بننے والی جماعت کو نیشنل پارٹی کا نام دیا۔ اس جماعت نے عوام کا ساتھ دیتے ہوئے 2008 کے عام انتخابات کے بائکاٹ کا اعلان کیا ۔ اس بائکاٹ کا مقصد صوبہ بلوچستان کے ساتھ ہونے والے معاشی اور سیاسی استحصال کے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔ 2009 میں میر حاصل بزنجو پہلی بار سینٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ پھر 2013 کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد مسل لیگ ن اور دیگر کامیاب جماعتوں کے ساتھ مل کر بلوچستان میں مخلوط حکومت بنائی۔ یہ مخلوط حکومت اس شرط پر بنائی گئی کہ وزیراعلی کی کرسی پر دونوں جماعتیں برابر عرصے کےلیے براجمان ہوں گی۔ چنانچہ یہ طے پایا کہ پہلے دورانیے میں یہ نشست نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک کے پاس رہے گی اور دوسرے دورانیے میں مسلم لیگ کے رہنما ثنااللہ زہری کے پاس۔ اس دور حکومت میں بلوچ قوم کی جبری گمشدگیوں میں ایک معمولی حد تک کمی دیکھنے کو آئی تاہم یہ حکومت  کوئی بڑی تبدیلی لانے میں ناکام رہی۔ سن 2014 میں میر حاصل بزنجو کو ایک مخصوص مدت کےلیے نیشنل پارٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا اور نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں انہوں نے بحری امور  و جہاز رانی کے وزیر کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔
مختصر یہ کہ انہوں نے اپنی محنت سے زندگی بھر کامیابیاں سمیٹیں۔ فطرتاً سادہ دل اور سادگی پسند شخصیت کے حامل شخص تھے۔ کوئی کام کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ زمانہ جوانی میں انہوں نے اپنے سیاسی خاندان کی شیخی کبھی نہیں بگھاری۔ انہوں نے پوری زندگی محنت کی اور بجائے اثاثوں کے انبار لگانے کے دوست بنائے ۔ان کے حلقہ احباب میں ہر طبقے کے افراد شامل تھے۔ 
ان کا جانا ملکی تاریخ میں ایک بہت بڑا خلاء ہے۔ سیاست کے میدان میں انہیں خوب ملکہ حاصل تھا۔ پاکستان کی سیاست میں ایسے انمول رہنما روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ اللّٰہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین!.