کہاں کی عید،کہاں آرزوۓ جشنِ طرب
ہم اہلِ درد محرم کے انتظار میں ہیں
محرم کا لفظ حرمت سے نکلا ہے حرمت کا لفظی معنی عظمت واحترام ہے اِسی بِنا۶ پر محرم کا مطلب احترام اور عظمت والا ہے چونکہ یہ مہینہ مبارک اور لائقِ احترام ہے اِس لیے اِسے محرم الحرام کہتے ہیں اسلام سے پہلے بھی اِس مہینے کوانتہائی قابلِ احترام سمجھا جاتا تھا اسلام نے اِس احترام کو جاری رکھا اِس مہینے میں جنگ وجدل ممنوع تھی اور کُشت وخون سے پرہيز کیا جاتا تھا یوں ہر قوم کا کوٸی نہ کوٸی کیلنڈر رہا ہے عیسوی سن کی ابتدا حضرت عیسٰی کی یوم ولادت سے ہوتی ہے اسی طرح بکرمی سن کی ابتدا مہا راجہ بکرما جیت کو ساکھا قوم پر فتح حاصل ہو نے کے واقع سے ہوتی ہے اور سنِ ہجری حضور ﷺکی ہجرت مدینہ کی یاد دلاتی ہے
یہیں سے اسلامی سال کی ابتدا ہوتی ہے یکم محرم الحرام سے اسلامی سال کی ابتدا کی گٸ اسی ماہ میں کاٸنات کی تخليق ہوٸی حضرت آدم کی آمد ہوٸی حضرت آدم کی توبہ قبول ہو ٸی کشتیِ نوح وادی جودی پہ ٹھری سیدنا یوسف کو جیل سے رہاٸی ملی فرعون غرقِ نیل ہواحضرت یعقوب کی بیناٸی لوٹی حضرت عیسیٰ کو آسمان پر زندہ اٹھایا گیا اِسی طرح طلوعِ اسلام کے بعد بھی اِس مبارک مہینے میں بہت سے واقعات پیش آۓ شعبِ ابی طالب کی محصوری سیدنا فاطمتہ الزہرا کا نکاح اور غزوہِ خیبر بھی اسی ماہ میں درپیش آٸی
چنانچہ اس ماہ کو اسلامی تاریخ میں بہت اہمیت حاصل ہےویسے تو یہ پورا مہیںنہ ہی باعثِ رحمت ہے لیکن جس طرح رمضان کا آخری عشرہ پہلے دو عشروں سے افضل ہے اور آخری عشرے میں لیلتہ القدر کی رات سب سے افضل ہے اسی طرح اِس مہینے میں عاشورہ کادن تمام ایام سے افضل ہے تاریخ کے تمام عظیم واقعات اسی دن سے جُڑے ہیں اسی دن حضرت مُحَمَّد ﷺکا حضرت خدیجہ سے نکاح ہوا اور اسی دن ہی قیامت برپا ہو گی عاشورہ کا مطلب ماہ محرم کا دسواں دن ہے تاریخ اسلام کا سب سے بڑا حادثہ جسے سانحہ کربلا کہتے ہیں اسی ماہ میں وقوع پزیر ہوا اپنے ہی نبی کی آلِ پاک کو مسلمانوں نے ذبح کر دیا
بقول اقبال
عجب تماشہ ہوا اسلام کی تقدیر کے ساتھ
قتل شبیر ہوا نعرہ تکبیر کے ساتھ
چنانچہ اس سانحہ کی یاد میں آج بھی اہلبیتِ رسول کے محب اس مہینے کو سوگ میں گزارتے ہیں حضرت امام حسین جو کہ نواسہِ رسول ہیں فرزندِحیدر کرار ہیں اُن کو اس وقت کے نام نہاد خلیفہ یزید بن معاویہ کے حکم پر اس مہینے کی دس تاریخ کو عاشورہ کے دن شہید کر دیاگیا اس دن کاٸنات میں عجیب واقعات رونما ہوۓ آسمان وزمین ،جن وانس اور کاٸنات کا ذرہ ذرہ اس سوگ میں شامل تھا اُس دن حق کا باطل سے ،قلت کا کثرت سےاور بھوک وپیاس کا صبر واستقلال سےمقابلہ تھا
شبِ عاشور تبدیلیِ فکر کی رات شبِ شہیداں کی رات اصحابِ حسین اور جنت کے درمیان صرف ایک ہی رات کا فاصلہ تھی صبح سب سے پہلے آپ نے اپنے اصحاب کو میدانِ جنگ کی طرف روانہ کیا کیونکہ اصحابِ حسین کٸ دنوں کے بھو کے پیاسے تھے ہر گھڑی گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی پیاس میں اضافہ ہوتا جارہا تھا اس مقصد کے تحت امام نے اپنے اصحاب کو میدان جنگ کی طرف بھیجا تاکہ وہ جلد حوضِ کوثر کے ساقی بن سکیں پھر چمنِ زہرا کے تمام پھولوں کے ساتھ دشمنانِ اسلام نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر خون کی ہولی کھیلی اور ایسے مظالم ڈھاۓکہ جس پر انسانيت قیامت تک سو گ میں مبتلا رہے گی
غمِ حسین منانا ایمان کا حصہ ہے اوراس مقصدِ پاک کیلیے گریہ جنت کی ضمانت ہےمگر فکرِحسینی تو پیامِ زینب ہے ہمیں اس میں بنیادی کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ خانوادہِ رسولﷺکے مردوں نے جامِ شہادت نوش فرمایا اور عورتوں نے ان قربانیوں کے مقاصد اور فکرِحسینی کے فروغ کیلیے بنیادی کردار ادا کیا ہمیں مقصدِحسین اور پیامِ زینب کو عام کر نا ہے نواسہِ رسول جگر گوشہِ بتول فرزندِحیدر حضرت امام حسین کو صرف مسلمانوں کیلیے محدود حسینیت پر سراسر ظلم کے مترادف ہے کیونکہ حسین کے سامنے نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانيت کا ہدف تھا اسی لیے امام حسین نے اپنے اصحابِ وفا اور مخدراتِ عصمت و طہارت کی ہمراہی میں جو اصولوں کی جنگ لڑی اس کے اثرات پوری دنیا پر یکساں مرتب ہوۓ یہی وجہ ہے کہ ہر طبقہِ فکر اور مزہب وملت سے تعلق رکھنے والے مشاہیر آپ کی ذات اور کردار سے برملا عقيدت کا اظہار کرتے دکھاۓدیتے ہیں
سوامی شنکر اچاریہ کہتے ہیں : ”
اگر حسین نہ ہوتے تو دنیا سے اسلام ختم ہو جاتا اور دنیا ہمیشہ کیلیے نیک بندوں سے خالی ہو جاتی حسین سے بڑھ کر کوٸی شہید نہیں “
مشہور افسانہ نگار پریم چند لکھتے ہیں کہ:
”معرکہِ کربلا دنیا کی تاریخ میں پہلی آواز ہے اور شاید آخری بھی ہو جو مظلموں کی ہمایت میں بلند ہوٸی اور اُس کی صداۓ بازگشت آج تک فضاۓعالم میں گونج رہی ہے“ اللہّ تعالٰی ہمیں مقصدِحسین سمجهنے کی توفيق عطا فرمائے اور وقت کے یزیدوں سے محفوظ رکھے
حسین تیرے لہو کی خوشبو فلک کے دامن سے آرہی ہے
یہ خونِ ناحق چپھے گا کیسے جسے یہ دنیا چپھا رہی ہے
کالم نگار خدا بخش میرانی
0 تبصرے