چین سے شروع ہونے والے مہلک ترین وائرس کرونا نے امریکہ برطانیہ یورپ اور ایشیا سمیت دنیا بھر میں جو تںاہی مچائی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی ملک ایسا نہیں رہا جہاں اس موذی اور جان لیوا بیماری کے کیسز رجسٹرڈ نہ ہوئے ہوں۔کرونا نے دنیا بھر کے ممالک کی طرح امریکہ برطانیہ برازیل اٹلی سپین فرانس سوئٹزرلینڈ جرمنی یونان ناروے سویڈن نیدرلینڈز کے علاوہ ایشائی اور افریقی ممالک کو شدید متاثر کیا۔کووڈ 19 سے متاثرہ مریضوں کی اموات میں خطرناک حد تک اضافہ تاحال دیکھنے کو مل رہا ہے۔کرونا وائرس نے نا صرف چین بلکہ امریکہ کے ساتھ ساتھ دیگر سینکڑوں ممالک کی معیشت پر بھی تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔



عالمی سٹاک مارکیٹس 2016 کے بعد بدترین بحران سے دوچار ہوئی ہے ۔بین الاقوامی سیاحت کو اس موذی وباء سے شدید دھچکا لگا۔جان لیوا امراض کے بڑھتے خطرات ہر آنے والے دن بین الاقوامی حصص مارکیٹ کے لیے بری خبر لا رہے ہیں۔خوف کی علامت یہ وائرس انسانوں کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت کو بھی نگلتا رہا۔دنیا بھر کئی بڑی سٹاک مارکیٹس کریش کر گئیں ۔ پاکستان سٹاک مارکیٹ میں بدترین مندی دیکھنے کو ملی ۔ملک بھر میں تعلیمی ادارے میرج ہالز سرکاری و نجی فیسٹیولز اور کاروباری و سیاحتی مراکز بند ہونے سے کھربوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔ایشائی سٹاک مارکیٹس میں سے جاپانی سٹاک مارکیٹ میں 3.3 فیصد، آسٹریلین 7 فیصد، چینی 1.7 فیصد ،سنگاپور 3.9 فیصد ،ہانگ کانگ میں 3.8 فیصد کی کمی ہوئی۔ بین الاقوامی ہوابازی پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے۔طاقت اور دولت کے بدلتے ہوئے معیار اور معاملات کے اثرات بھی وسیع اور گہرے ہیں۔ امریکہ نے اپنی طاقت کا لاہا منوا کر عالمی سیاست اور سفارتکاری میں 6 عشروں سے مرکزی یا کلیدی کردار ادا کیا لیکن اب اس کی تباہی کا سبب وہ بے نام پروگرام ہیں جو ختم ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ مغربی ممالک خصوصاً امریکہ اور یورپ کی عوام کا اپنے حکمرانوں اور سرمایہ دارانہ نظام پر اعتماد کا فقدان دراصل مغرب میں معاشی ناہمواری ،عدم مساوات اور جنگ وجدل کا نتیجہ ہے۔ 
چین نے جہاں نیا ایشیائی بینک بنا کر عالمی مالیاتی اداروں کی اجارہ داری  ختم کرنے کےلئے مثبت قدم اٹھایا ہے وہیں امریکہ میں جاری اقتصادی بحران کے نتیجہ میں بڑی تعداد میں بینکوں کے بند ہونے سے بےروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ 90ء کے عشرے میں مجموعی طور پر 12343 کمرشل بینک کام کر رہے تھے جن کی تعداد میں 40 فیصد کمی ہوئی ہے۔ لہذا چینی قیادت کے ان اقدامات کی بدولت ترقی پذیر ممالک کو وقت کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف اور ورلڈ کے شکنجے سے نکلنے کا ایک موقع فراہم ہوا ہے۔دنیا کے تمام ممالک کے انتظامی اور سیاسی ڈھانچوں کے کڑے امتحان کا دور ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
 اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ چین اور امریکہ کے تعلقات کٹھن دور سے گزر رہے ہیں۔ جارحانہ مزاج کے مالک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کورونا کو چائینیز وائرس قرار دیتے رہے ہیں لہٰذا اب یہ کشمکش صرف لفظوں کی جنگ تک محدود نہیں رہی۔ گزشتہ 7 دہائیوں میں امریکہ کی عالمی رہنما ہونے کی حیثیت کا انحصار صرف دولت اور فوجی قوت پر منحصر نہیں تھا بلکہ یہ حیثیت امریکی حکومت کو داخلی طور پر بہتر طرزِ حکمرانی کی وجہ سے حاصل قانونی جواز انسانیت کی فلاح کے کاموں اور کسی بھی عالمی بحران کی صورت میں فوری اور مربوط ردعمل کےلئے تیار رہنے اور متحرک ہو جانے کی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے تھا۔
لیکن اب کورونا وائرس کی عالمی وباء امریکہ کی عالمی برتری کے تینوں عناصر کا امتحان ہے جس پر امریکی انتظامیہ تاحال اس پر پورا نہیں اتر سکی۔اس کے برعکس چین موجودہ بحران میں مبتلاء ممالک کی ہر ممکن مدد کر کے خود کو ایک عالمی طاقت کے طور پر دنیا کے سامنے لانے میں کافی حد تک کامیاب رہا ہے۔ وہ بھی ایسے لمحات میں جب چین خود اس وباء سے نکلنے کی تگ و دود کر رہا تھا۔امریکہ کی عالمی حیثیت پر کورونا وائرس کا تباہ کن اثر پڑا ہے۔امریکی صدارتی انتخابات کے دوران ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ پر سر عام  تنقید کرتے ہوئے امریکی پالیسیوں سے اختلافات کیا جا رہا ہے۔چین نے اس وباء کے خلاف جنگ میں دوسرے ممالک سے اپنے روابط کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مستقل اپنے تعلقات کے دائرہ کار کو وسعت دی ہے۔وہ بھی ایسے تعلقات جس میں وہ دوسرے ممالک کےلئے ایک ناگزیر ملک بن جائے۔کورونا وائرس پر جب قابو پا لیا جائے گا تو چین کی معیشت کا دوبارہ اٹھنا دنیا کی تباہ حال معیشت کو بحال کرنے میں اہم عنصر ثابت ہو گا ۔ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی وجہ ڈے عالمی سطح پر تحفظاتی رجحانات بھی شدت پکڑ رہے ہیں اور ہر ملک اپنے آپ کو بچانے کےلئے سرگرداں ہے اور منفی اثرات کو برآمد کر دینا چاہتا ہے۔امریکہ کی چین اور یورپ کے ساتھ تجارتی جنگ جو کچھ ٹھنڈی پڑ گئی تھی اب دوبارہ شروع ہونے کا خطرہ پہلے سے کہیں بڑھ چکا ہے۔