اگست 14 . 1947 کا دن انسانی تاریخ کا ایک عظیم معجزہ اور واقعہ ہے۔ مسلمانان برصغیر نے انگریز سامراج کی سازشوں اور ہندو بنئے کی چالبازیوں کے باوجود اپنی بے مثال جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے ذریعے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے قیام کو ممکن کردکھایا۔ 


ایک الگ مملکت کا خواب علامہ اقبال ؒ نے دیکھاتھا لیکن اسکی تعبیر بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قسمت میں لکھی تھی جنھوں نے مسلمانان برصغیر کو ایک منظم قوم میں بدلا اوراپنے اخلاص، بلند کردار، جرأت و استقامت، اصول پسندی اور دو قومی نظریے پر یقین کے نتیجے میں پاکستان بنانے میں کامیابی حاصل کی. 
بیسویں صدی میں جابجامسلم ممالک دنیا کے نقشے پر ابھرے ہیں،جغرافیہ اور تاریخ بدلی ہے۔اور ظاہر ہے کہ کسی نے طشت میں رکھ کر مسلمانوں کو آزادی پیش نہیں کی ہے بلکہ کشمکش ، آگ اور خون کے دریا پار کرکے آزادی حاصل کی گئی ہے۔ ہر ایک جو اپنا پاکستان بنا رہاتھایا اپنے ہی ملک کے اندر استعمار کو بھگا رہاتھا،توہر جگہ کے لحاظ سے نعرہ یہی تھا’’ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ‘‘،اور یہ اسلام کا مضبوط حوالہ تھاجس نے لوگوں کے اندر کردار،جدوجہداور کوشش و کاوش کا ایک عنوان اور بڑے پیمانے پر قربانیاں دے کر کشمکش مول لینے کا کلچر پیداکیا۔لہٰذا اس اعتبار سے یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ آج اگر ستاون ملک دنیا کے نقشے پر آزاد مسلمان ملک کہلاتے ہیں تو حقیقتاً ان کی بڑی تعداد اسلام اور کلمے کے نام پرآزاد ہوئی ہے۔ خود برصغیر پاک و ہند میں لاکھوں انسان آگ اور خون کے دریا سے گزرے۔ بہنوں بیٹیوں کے دامن عصمت تار تار ہوئے اور لوگ لٹے پٹے قافلوں کی صورت میں پاکستان پہنچے۔
ظاہر ہے کہ یہ قربانی اور جدوجہدکسی مادی مفاد کیلئے نہ تھی بلکہ اس اسلامی نظریے کیلئے تھی جس کی بنیاد پر پاکستان قائم ہونے جارہا تھا۔ دینی و مذہبی احساس، پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا خواب اور اس کی خاطر ہر قربانی کو انگیز کرنے کا جذبہ، یہ وہ عناصر ترکیبی ہیں جو قیامِ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کی اصل بنیاد ہیں۔بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے جب بھی حصول پاکستان کے مقاصد کا ذکر کیا توان مقاصد میں ایک ایسی اسلامی ریاست کا قیام سرفہرست تھا جہاں قرآن و سنت کی فرمانروائی ہو۔ 
قائداعظم کی یہ دیرینہ خواہش رہی کہ پاکستان کی نشوونما ایک ایسی مضبوط اور مثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہو جہاں کے باشندے اپنے عقیدے کے مطابق اپنے مذہب پر عمل کر سکیں اور اسلام کے نظام عدل و انصاف سے مستفید ہوسکیں۔قائد اعظم کی تقاریر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام کوصرف چند عقیدوں، روایتوں اورروحانی تصورات کا مجموعہ نہیں بلکہ ہر مسلمان کیلئے ایک ضابطہ سمجھتے تھے جو اسکی زندگی اور کردار کو سیاست و معیشت اور انفرادی و اجتماعی معاملات میں انضباط عطا کرتا ہے۔ قرآن مجیدکے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کر سکتے ہیں۔ قائداعظم کے نزدیک پاکستان کی اساس اسلام اور صرف اسلام تھی وہ محض ایک قطۂ زمین حاصل کرکے سیاسی مفہوم میں ایک ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے بلکہ اُن کا حقیقی مقصد ایک نظریاتی اسلامی مملکت کا قیام تھا۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ ’’مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے ‘‘۔ جس ملک کی بنیاد ہی مسلم قومیت ہو اور مسلم قومیت کی اساس صرف کلمہ طیبہ ہے تو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہونے والے ملک کی نظریاتی سرحدیں کیسے تصوراتی اور خیالی ہو سکتی ہیں۔ علامہ اقبال نے فرمایاتھا کہ:
گر تو می خواہی مسلمان زیستن

  کالم نگار خدا بخش میرانی