بلوچ قوم ایک اور ہونہار سپوت ڈے محروم ہو گئی۔ چند روز قبل رونما ہونے والے روح فرسا واقعے میں نہتے حیات نامی بلوچ نوجوان کو اس کے والدین کے سامنے درندگی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔ یہ واقعہ بلوچستان کے ضلع تربت میں پیش آیا۔


 پریس ریلیز میں یہ بات سامنے لائی گئی ہے کہ ضلع تربت میں آبسر روڈ پر بلوچی بازار کے قریب ایف سی کی دو گاڑیوں پر حملہ ہوا جس کے شبہ میں مبینہ طور پر ایک ایف سی اہلکار نے قریبی باغات میں موجود محمد حیات پر اپنی سرکاری رائفل سے گولیوں کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں محمد حیات موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا۔
محمد حیات ایک ہونہار طالب علم تھا جو کراچی یونیورسٹی سے اپنی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ وہ سماجی اور فلاحی کاموں میں پیش پیش تھا اور قرب و جوار میں رضاکارانہ طور پر عوام کی خدمت میں ہمیشہ آگے آگے رہتا تھا۔ حیات کا تعلق بلوچ قوم کے ایک غریب گھرانے سے تھا ۔اس کے والد  ایک باغ میں ٹھیکے پر کام کرتا تھا لیکن اولاد کو ہر ممکن ضروریات اور تعلیم و شعور کی آگاہی فراہم کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے ۔پہلے بھی ایسے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ کھل کر سامنے آ گیا۔ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر طرف  ایف سی کی اجارہ داری قائم ہے لیکن مقام حیرت کی امن اب تک قائم نہ ہو سکا۔ بلوچ قوم کے ساتھ ہمیشہ ناانصافی ہوتی رہی ہے ۔کبھی یہ ناانصافی بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کی صورت میں ہوتی ہے تو کبھی نوجوانوں کے قتل یا گمشدگی کی صورت ۔ ایسے واقعات بلوچستان کی نوجوان نسل میں کھلبلی مچانے کا سبب بنتے ہیں اور انہیں بغاوت پر اکساتے ہیں۔  نوجوانوں کو باغی بنانے والے گروہ ہمیشہ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کوئی سانحہ ہو اور وہ نوجوانوں کو ریاست کے خلاف اکسا سکیں۔
 کیونکہ ایسی صورت حال میں نوجوان شدید جزباتیت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہو جاتی ہے۔ انہیں غم و غصہ نکالنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی ۔پھر ایسے حالات میں گھات لگائے دشمن کو نوجوان کی دکھتی رگ مل جاتی ہے جس پر دباؤ ڈال کر وہ من پسند کام نکلوا سکتے ہیں اور بلوچ قوم کو بغاوت پر اکساتے ہیں۔ اس واقعے پر مختلف سیاسی اور سماجی اداروں کی طرف سے انتہائی مزمت کا اظہار کیا گیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر بھی حیات کو انصاف دلانے کی مہم جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بلوچ قوم کی نسل کشی ہے۔ بلوچ قوم کے قابل اور ہونہار نوجوانوں کو چن چن کر قتل کر دیا جاتا ہے تا کہ وہ آگے نہ بڑھ سکیں اور ترقی نہ کر سکیں ۔اس سے دوسرے نوجوانوں کے حوصلے پست کئے جا رہے ہیں ۔ان والدین کی کمر توڑی جا رہی ہے جن کی جوان اولادیں ہیں ۔جو اپنی اولاد کی ترقی کے خواب دیکھ رہے ہیں اور جن کی جوان اولاد کئی سالوں سے گمشدہ ہے۔
 اس کیس کا مقدمہ حیات کے بھائی مراد سعید نے کٹوایا ۔مراد سعید کا کہنا تھا کہ میں ڈیوٹی پر تھا جب مجھے کال پر اپنے بھائی کے قتل کا بتایا گیا ۔مجھے بتایا گیا کہ حیات کا قتل ایف سی اہلکار کی فائرنگ سے ہوا ۔جب میں موقع پر پہنچا تو حیات کی خون سے تر  لاش سڑک پر پڑی تھی۔   یہ کس معاشرے کا قانون ہے کہ اولاد کے ہاتھ پاؤں باندھ کر والدین کے سامنے بے دردی سے گولیوں سے چھلنی کر دیا جائے۔ محمد  حیات کو آٹھ گولیاں ماری گیئں ۔ حالیہ ذرائع کے مطابق پہلے اس  کیس کی تفتیش ایف سی کر رہی تھی تاہم بعد میں یہ کیس بمعہ ملزم شاہد اللہ  تربت پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ اس اہلکار کا تعلق  ایف سی کےفرنٹیئر کور سے تھا۔ ملزم  سے تفتیش کے لیے اس کا سات روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا گیا ہے ۔بلوچ قبائل انصاف کی راہ دیکھ رہے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ حیات کو انصاف ملے گا یا دیگر کیسوں کی طرح اس کیس کی فائل  بھی صرف ٹوکری کی خانہ پری کے کام آئے گی۔