تحریکِ نسواں کی ابتداء کیسے ہویئ؟

تحریر براے:  رمشا یاسین 

 انسانی تمدّن اور تہذیب و ثقافت کی وہ بنیاد جس کو قائم کرنے میں اگر ذرا سی بھی بے اعتدالی برتی جائے تو قوموں کی قومیں  تباہ ہوجائیں۔ کائنات کا وہ معمہ جسے حل کرنے میں بڑے بڑے مفسرینِ کرام، علما و عقلاء سر گرداں رہے ہیں۔ صدیوں سے جاری وہ جنگ جس میں بہت سی قومیں تباہ ہوگیئں اور بہت سوں کو قدر و منزلت ملی۔ انسانی زندگی کا سب سے باریک بین اور پیچیدہ مسئلہ کہ مرد و عورت کے روابط کس طرح قائم کیے جائیں۔ کسی بھی مسلے کا سہی حل اسی وقت ممکن ہے جب کے نقطہِ عدل ہو اور اس پر عمل کرنے والے بھی موجود ہوں۔ 


مگر جب حقائق سامنے ہوں اور نفس پرستی اس قدر بڑھ جائے کہ سب دکھنے کے باوجود بھی کچھ نہ دکھائی دے تو جو حل بھی نکالا جائے گا، تباہی مچائے گا۔ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ وہ عورت جو ماں کی حیثیت سے مرد کو جنم دیتی ہے، بیوی کی حیثیت سے مرد کی ساتھی بنتی ہے، اسے غلام بنادیا جاتا ہے۔ اسے جسمانی کھلونا سمجھا جاتا ہے۔ وراثت میں سے اس کے حقوق سلب کرلیے جاتے ہیں۔ اسے کم تر اور ادنیٰ درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ شہوانیت پرستی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس سے ہر طرح کی آزادی چھین لی جاتی ہے۔ اور دوسری طرف یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ وہی عورت ابھاری جارہی ہے، وہ بھی اس عروج کے ساتھ کہ انسانیت کے گرنے کا عمل شروع ہواجاتا ہے، اور خاندانی نظام تباہ ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ان دونوں انتہاوں میں سوائے بربادیِ نسل کے کچھ بھی روپوش نہیں۔ 
اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ا ہلِ یونان کے بعد وہ اہلِ روم تھے جن کا خاندانی نظام کچھ یوں تھا کہ مرد اپنے خاندان کا سربراہ ہے اور اپنے بیوی بچوں کا مالک بھی اور بہت سے معاملات میں وہ اپنی بیوی کو قتل کرنے کا بھی حامی ہے۔ مگرجب وحشت کم ہوئی تو ان سختیوں میں کچھ کمی آئی۔ عورت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ مرد و عورت کے روابط نکاح کی ہی صورت میں بتدریج پائے۔ مگر اس ترقی کے ساتھ رومیوں کے نظریات پھر سے بل کھانے لگے۔ نکاح محظ اک قانونی معاہدہ بن کر رہ گیا۔ عورت کو وراثت میں اس طرح حقوق دے دیے گئے کہ اسے باپ اور بھائی کے اقتدارسے مکمل آزاد کردیا گیا۔ عورتوں کو معاشی طور پر اتنا مستحکم بنایا گیا کہ وہ بھاری تعداد میں اپنے شوہروں کو قرض دینے لگیں چنانچہ مرد انکے غلام بن کر رہ گئے۔ طلاق اس قدر عام ہوئی کہ بات بات پر رشتہ ختم کیا جانے لگا۔ گناہوں کا یہ عالم تھا کہ علماء اورمفسرین بھی زنا جیسی بدکاریوں سے باز نہ رہ سکے۔ اس وقت روم میں ''فلورا'' نامی ایک کھیل مشہور ہوا جس میں برہنہ عورتوں کی دوڑ ہوتی تھی۔ مرد و عورت کے یکجا غسل کرنے کا رواج بھی عام تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس دور کہ بعد روم کو کبھی عروج حاصل نہ ہوسکا۔
نسلِ انسانی کی اس دوڑ کو بچانے کیلیے مسیحت پہنچی اور اُس نے بہت سے اقدامات بھی کیے جس کی بدولت فحاشی اور زِنا کاریوں میں کمی واقع ہوئی۔ مگر آبائے مسیحین بذات ِخود عورت کے بارے میں جو سوچ رکھتے تھے، وہ دوسری انتھا تھی۔ انکاپہلا نظریعہ تو یہ تھا کہ عورت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ برائی عورت سے شروع ہوکر اُسی پر ختم ہوتی ہے۔ دوسرا نظریعہ یہ  تھا کہ مرد و عورت کا تعلق چاہے نکاح کی صورت میں ہی ہو، گندگی کا ڈھیر ہی ہے۔ اور اسی کی بدولت شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے سے تنہائی میں ملنا بھی محال تھا۔ اور پھر خلع لینے کے حقوق بھی سلب کرلیے گئے تھے۔ غرض کے مصیبت ہی مصیبت تھی۔ اور اسکا انجام بھی بربادی ہی تھا۔  ان مسائل سے بچنے کے لیئے جو آواز اٹھائی گئی اس کی بساط وہی ہے جو آج یورپ کی بنیاد ہے۔ جدید یورپ نے جو ستون قائم کیے ان کے مطابق عورت اور مرد برابر ٹھہرائے گئے۔ برابری کے غلط تخیّل کی بدولت عورت کو ہر قسم کی آزادی دے دی گئی۔ یہ سمجھا جانے لگا کہ ہر وہ کام جو مرد کرتا ہے عورت بھی کرے۔ اب صرف مرد نہیں بلکہ عورت بھی کمائے اور اولاد کی تعلیم و تربیت بازار کے سپرد کر دی جائے۔ اب بات نہایت واضح ہے کہ جب کسی عورت کو مر د کی ضرورت ہی نہیں توبھلا کیوں وہ محض نفسانی خواہشات کی وجہ سے رشتہ ازدواج میں بندھنا گوارا کرے گی۔ یہ سب تو نکاح کے بغیر بھی ہوسکتا ہے۔ بس اسی سوچ کی بدولت مرد و عورت کے درمیان غیر اخلاقی روابط کی آمد ورفت رکتی نہیں، حالانکہ ایک طرف عورت یہی کہتی ہے کہ اسے مرد کی کویئ ضرورت نہیں۔ عورت اپنے کپڑوں سے باہر نکل رہی ہے اورادھرمرد حضرات کے اندر شہوانیت کی آگ ہے کہ بجھتی نہیں۔ یہی وہ نکات ہیں جن کی وجہ سے مغربی دنیا میں طلاق کا سلسلہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ نتیجتاً، فواحش کی کثرت میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور نسلِ انسانی تباہی و بربادی کی راہ پر گامزن ہے۔
راہِ حل اور انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ عورت کو ہر طرح کے حقوق دیے جائیں اور اسے اپنی شخصیت نکھارنے اور بنانے کا پورا پورا موقعہ بھی فراہم کیا جائے تاکہ وہ معاشرے کی فلاح و بہبود اور اولادکی سہی تعلیم و تربیت کے اسباب مہیا کر سکے۔ دوسرا یہ کہ مرد و عورت کے تعلقات کی اک حد مقرر کی جائے جس سے اصل نظم وضبط قائم ہو اور اخلاقیات بگڑنے کی بھی صورت درپیش نہ آئے۔ اور یہی حل ہے، یہی وہ تعلیم ہے جو اسلام دیتا ہے اور زندگی کو اک زبردست سانچے میں ڈھالتا ہے۔مگر افسوس کہ آج کا مسلمان ہی ِدین ِاسلام کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔
۹۱سویں صدی کے آخر میں جب مسلمان قومیں مغرب کی غلام ہو چکیں توغلامی سے نجات کا اور کوئی رستہ بھی تومسلمان کو نظرنہیں آرہا تھا۔ چنانچہ، فیصلہ ہوا کہ یورپ کے ہی رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ بس یہیں سے مسلمانوں کے زوال کی ابتدا ہوئی۔ یہی وہ دور تھا جب مسلم ممالک میں مغربی دنیا کے طور طریقوں کی نقل و حرکات کی گئیں۔ مغربی لباس، مغربی معاشرت، حتیٰ کہ مغربی زبان کی بھی۔ زنا جیسی بڑی بڑی برائیاں عام ہوگئیں اور اخلاقیات پسماندہ پڑنے لگی۔ قرآن و حدیث کوجھوٹا ثابت کرنے سے بھی دریغ نہ کیا گیا۔ جہاد پر اعتراضات ہوئے۔ عورت اور مرد کی برابری کی غلط باتیں کی گئیں اوررشتہ ِازدواج پر بھی انگلیاں اٹھائیں گئیں۔ حتیٰ کے یہ تک کہ دیا گیا کہ اسلا م تو بذاتِ خود ناچنے گانے اور آرٹ کی سرپرستی کرتارہا ہے۔ اسی زمانے میں مسلہ حجاب پر بھی ابتدا ہوئی کیونکہ یورپ نے پردے پر سخت تنقیدی نظریں رکھنا شروع کردی تھیں۔ چنانچہ جس طرح ہر مسئلے پر قرآن کو جھوٹا ثابت کرنے کی کاوشیں کی گئی تھیں، اس معاملے میں بھی یہی ہوا۔ جائزہ لینے کے بعد پتا چلا کہ اسلام میں تو عورت تعلیم بھی حاصل کرسکتی ہے اور ضرورت پڑنے پر گھر سے باہر بھی نکل سکتی ہے۔ بس! اپنے مطلب کی باتیں نکال کر دعویٰ کردیا گیا کہ اسلام نے تو عورت کو بالکل آزاد کردیا۔ اور جو باتیں نفس کے خلاف تھیں انہیں مکمل طور پر نظر انداز کردیا۔ دیکھا جائے تو آج کے معاشرے کا مسلمان بالکل یہی کارنامے سر انجام دے رہا ہے۔ جسے دیکھو اسلام میں سے اپنے مطلب کی باتیں نکالنے میں مبتلا ہے اوراگر  پوری حقیقت سے اس کی بات بھی کی جائے تو کہتا ہے کہ اس معاملے میں اسلام کو بیچ مں مت  لاؤ۔  چنانچہ، اُسی دور سے مرد و عورت کے مساوات اور حقوقِ نسواں جیسی تحریکوں سے مسلمان متاثر ہوئے اور انہیں غلط سانچے میں ڈھالا۔ بس یہی ابتدا تھی، مسلمانوں کے زوال کی۔ وہ تو فریب میں آیئے ہویئے تھے، اپنے نفس کے ہاتھوں مجبور ہوکر۔ وہ بھول گیئے تھے کہ اسلام کس طرح عورت کو اس کے حقوق دیتا ہے اور کس طرح کی پابندیوں سے معاشرے میں ایک نظم و ضبط قائم کرتا ہے جس کی بدولت فلاحِ نسانی وجود میں آتی ہے۔ 
اور تو اور آج کی عورت بھی یہ بھول چکی ہے کہ اصل میں اس کے حقوق کیا ہیں اوراس کی عزت و کامرانی کن باتوں میں ہے۔ وہ خود مرد بننے کی کوششوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے میں مشغول ہے۔ دوسری طرف یہ مرد ہی ہے جو عورت کو اس کے اصل حقوق دیتا نہیں ہے اور پھر اگلے ہی لمحے اسے اس طرح ابھار رہا ہے جس طرح تاریخ میں یورپ کے مردوں نے ابھارا۔  آجکل دیکھا جایئے تو وہی سب کام ہورہے ہیں جن کی ابتداء یورپ سے ہویئ۔  عورت اور مرد کی برابری کا تخیل یہی تسلیم کرلیا گیا ہے کہ جو کام مرد کرتا ہے وہی عورت بھی کرے، اور اِس کی بساط یہی بنادی گیئ ہے کہ شادی بیاہ تو سب بے کار باتیں ہیں۔  آج کی عورت نکاح سے تو کتراتی ہے مگر غیر اخلاقی روابط قایئم کرنے سے بلکل اُسے کویئ مسلہ درپیش نہیں۔  اور یہ مرد،  ویسے تو اسے پاک و صاف پردہ کرنے والی بیوی چاہیئے  لیکن خود کے اندر نفس کی آگ ایسے بھڑک رہی ہوتی ہے کہ سارے قوانین اسے صرف عورت کے لیئے یاد آتے ہیں۔ 
انہیں سارے معاملات کی بدولت  فحاشی تو بڑھتی جا  ہی رہی ہے بلکہ ساتھ ساتھ طلاق کاعمل بھی زیادتی کا شکار ہے۔  کیوں کہ ہر عورت کو شادی کے بعد وہی  آزادی چاہیے جو کہ مغربی عورت کو  حاصل ہے۔  اور سب سے مزے دار بات تو یہ ہے کہ عورت خود کو کامیاب اُس وقت سمجھتی ہے جب وہ مرد جیسے کپڑے پہن لیتی ہے۔ کیا مرد جیسے کپڑے پہن لینا کامیابی کی دلیل ہے؟ کیا اِس سے یہ ثابت نہیں ہورہا کہ عورت آزادی نہیں مانگ رہی بلکہ خود کو مرد بنانا چاہتی ہے؟مگر  اِس کے پیچھے اصل مدعا وہی ہے جو کہ میں پہلے بھی بیان کرچکی کہ عورت کو ایک طرف تو پیر کی جوتی سمجھا جارہا ہے، تو دوسری طرف اسے ابھارا جارہا ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ نسلوں کی بربادی کا عمل شروع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت اپنے اصل مقام کو پہچاننے سے انکاری ہے اور مرد حضرات انہیں، ان کے حقوق نہیں دیتے کیوں کہ انہیں بس اپنے مطلب کی بات مل چکی ہے کہ وہ مجازیِ خدا ہیں۔ لیکن مجازیِ خدا ہونے کے فرائض پر روشنی ڈالنے سے بالکل عاری ہیں۔ کیوں کہ اگر انہوں نے ایسا کردیا تو پھر تو انہیں اپنی من مانیوں سے باز آنا پڑے گا۔ چنانچہ، عورت احساسِ کمتری کا شکار ہے، یہی وجہ ہے کہ جو حیثیت اسلام نے اسے دی ہے، عورت اسے بھی سمجھنے سے قاصر ہے۔  اور اِس کی بڑی وجہ مرد و عورت کی عمل کی کمزوری اور علماء کرام کی جانب سے دین پر روشنی نی ڈالنے کی لاپرواہی ہے۔ 
 
ایسی قوم آخرکیسے ترقی کرسکتی ہے،یہ جاننے کے باجود کہ یورپ تباہی کا سفر کئی بار طے کر کر کے برباد ہوا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ جو تعلیم حدوں کوپار کرنے کے لیئے مجبور کردے وہ تو تعلیم ہی گناہ ہے، فتنہ ہے۔ اور یہ آج کی عورت سمجھتی ہے کہ کپڑوں سے باہر نکل کر وہ بہت آزاد خیال بن جائے گی یا اسے اسکے حقوق دے دیے جائیں گے۔ جو اپنی عزت کوہی نہیں پہچانتا تو اس کی عزت آخرکرے گا کون؟  اور یہ مرد خود کو محض ایک درجہ اوپر سمجھتا ہے، وہ اِس بات کو تو مان رہا ہے مگر عورت کے حقوق کو بھلا رہا ہے۔ اِس معاشرے کا المیہ ہے کہ یہاں ہر کوئی اپنے دین میں سے صرف اپنے مطلب کی باتیں چن رہا ہے۔ پہلے بھی یہی ہوتا آیا ہے اور آج بھی یہی ہورہا ہے۔ اور نتیجتاً کیا دیکھنے میں آرہا ہے؟ اولاد کی تربیت بازار کے سپرد ہے، پیدا ہوتے ہی بچے کے ہاتھ میں موبائل دیے دیا گیا ہے، چھوٹی چھوٹی عمروں کے بچے سیگریٹ نوشی اور نشے جیسی گندگیوں میں برباد ہورہے ہیں، آج کے نوجوان غیر اخلاقی روابط قائم کرنے میں مشغول ہیں،گویا ان کی زندگیوں کا مقصد یہی بن کر رہ گیا ہو۔سوشل میڈیا پر ویسے تو سب خود کو بڑے پاک باز اور دین دار ظاہر کرتے ہیں اور قرآان پر ایسے بحث و مباحثے کرتے ہیں جیسے سارا قرآن تفسیر کے ساتھ انہیں حفظ ہو، لیکن اصل زندگی میں قرآن کھول کر بھی نہیں دیکھتے۔ یہ نسل کی بربادی نہیں تو اور کیا ہے۔ جس معاشرے کا مرد عورت کو نیچا دکھانے میں لگا ہو اور جس معاشرے کی عورت خود کو مرد بنانے میں لگی ہو، اُس معاشرے میں شوہر و بیوی کا رشتہ کیسے پھل پھول سکتا ہے اور آخر کیسے وہ معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے؟ 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے