گزشتہ روز معروف صحافی و تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کی ایک کتاب شائع ہوئی یہ کمپنی نہیں چلے گی کے نام سے اس کتاب کے لوگو پر کچھ کارٹون بنے ہوئے تھے۔ جن کو لوگوں نے متنازع قرار دیا۔ان کارٹونوں میں نظر آنے والے چہرے بظاہر یار لوگوں کے بڑے باجوہ صاحب ایک کرسی پر بیٹھے ہیں اس کے علاوہ جو کچھ بھی نظر آرہا ہے آپ خود اس تصویر میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔یہ تو ہو گئی تمہید باندھنے تک کی بات اب ہم دیکھتے ہیں اصل بات کیا ہے۔
آخر اس کتاب میں ایسا کیا چھپ گیا ہے کہ محکمے والوں کو اس بیچاری کتاب کے چار ہزار تیار شدہ کاپیاں ضبط کرنا پڑیں۔اب مرحلہ وار حقاق پر روشنی ڈالتے ہیں۔سب سے پہلی بات اس
کتاب کو پڑھا جانا چاہیے تھا کہ اس میں آخر لکھا کیا ہے ممکن ہے اندر کوئی تعاریف لکھی ہوتی۔دوسری بات کیا اب ہمارا دل مطلب ان کا دل اتنا چھوٹا ہو گیا ہے کہ ایک کتاب پر چسپاں لوگو سے ہی خوفذدہ ہوگئے۔اگلی بات یہ کہ کیا سہیل وڑائچ کو یہ کرنا چاہیے تھا؟ ان سب سوالوں کا تو جواب یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی ادارے کے سربراہ کی تصویر یا کارٹون کی صورت میں شائع کرے اور اس تصویر کا جو متنازعہ حصہ وہ تو ہے ہی ناقابلِ ذکر۔
اس کے بعد بات آتی ہے اصل کہانی کی وہ کچھ یون ہے کہ اس کتاب کو ابھی تک پڑھا کسی نے نہیں ہے۔تو کوئی حتمی تبصرہ کرنا ممکن نہیں مگر اب اندر کی بات کچھ یوں ہے کہ یہ کتاب دوبارہ تجدید کے بعدپھر سے شائع ہو جائے گی۔دونوں فریقین کو صبر سے کام لینا چاہیے تھا۔ ایسی حرکت سے دونوں کو نقصان پہنچا ہے البتہ ایک بات سچ ہے کہ مارکیٹنگ کبھی بھی نیگیٹو نہیں ہوتی۔صرف مقبولیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
0 تبصرے