اپوزیشن جماعتوں کی قوم کو گمراہ کرنے کی فطرت نہیں بدلی ۔ انہی میں سے جب کوئی جماعت برسرِ اقتدار آتی ہے تو ان کی ایک دوسرے سے طوطا چشمی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بلکہ صرف طوطا چشمی پر ہی اکتفا نہیں کیا جاتا ، ایک دوسرے کے خلاف میڈیا کمپین چلائی جاتی ہے اور نیب میں ایک دوسرے  کے خلاف صدیوں پرانے کیسز کھلوائے جاتے ہیں ۔



 ڈھونڈ ڈھونڈ کے الزام تراشی اور کردار کشی کی جاتی ہے لیکن جب کوئی تیسری جماعت اقتدار میں ہو تو یہی جماعتیں ایسا پلٹا کھاتی ہیں گویا ان سے بڑھ کر کوئی اس ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہی نہیں ۔ صرف ملک نہیں بلکہ بعض اوقات تو ان کے رویوں یہ بھی گماں ہوتا ہے کہ یہ جماعتیں صرف نام کی مخالف ہیں۔  کچھ جماعتیں تو صدا سے ہر جماعت کے ساتھ اتحاد کر لیتی ہیں اور نتیجتاً ہر بار حکومت میں ان کا کچھ نہ کچھ حصہ شامل ہوتا ہے۔
 اس کی زبان زد عام مثال مولانا فضل الرحمان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام ہے ۔ایک زمانہ تھا کی ان کی جماعت کے بغیر حکومت بننے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن 2108ء کے عام انتخابات میں ان کی جماعت کو اپ سیٹ کا سامنا کرنا پڑا اور مولانا صاحب کو خود بھی اپنے ازلی حلقے سے منہ کی کھانی پڑی۔ اسی وجہ سے 2018ء کے انتخابات کے فوراً بعد سے مولانا صاحب نے ڈھکوسلے کرنا شروع کر دئیے ۔پہلے پہل تو دھاندلی کا رونا رویا لیکن جب اس سے کام نہ بنا تو حزب اختلاف کو ساتھ لے کر چلنے کا فیصلہ کیا اور ہر چھوٹی اور غیر سنجیدہ بات کو مسئلہ بنا کر احتجاج کرنا وطیرہ بنا لیا ۔اس سے لگتا ہے کہ مولانا صاحب ابھی تک اپنی  شکست کو قبول نہیں کر پائے۔  
حکومت نے چونکہ  کرپشن کے نعرے کے ساتھ کامیابی حاصل کی تو جب کرپشن کے خلاف تحریک کا عملی آغاز کیا تو اپوزیشن جماعتوں نے شدید ناگواری کا اظہار کیا ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ سب کاروائیاں بدلے کےلیے کی جا رہی ہیں اور حکومت کم ظرفی کا ثبوت دے رہی ہے۔ حزب اختلاف کی بڑی بڑی مچھلیاں کرپشن کے خلاف تحریک میں ہاتھ آئیں ،انہیں جیلوں میں ڈالا گیا اور ان کے خلاف تاحال تحقیقات جاری ہیں۔
جب بھی کوئی خاص مسئلہ درپیش ہو یا دوسرے الفاظ میں  اپنی درگت بننے کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہو تو یہ رویت بنا لی گئی ہے کہ آل پارٹیز کانفرس کے مہذب نام کا استعمال کیا جاتا ہے اور اپنے مفادات کا گہرا تجزیہ کیا جاتا ہے اور اجتماعی مفادات کے پیشِ نظر نئی حکمت عملی اور لائحہ عمل تجویز پاتا ہے۔ حزب اختلاف کی جانب سے کل  19 ستمبر بروز ہفتہ کو ایک بار پھر یہی ڈارمہ سجایا گیا۔
اس کانفرنس میں کرپٹ بچاؤ نعرے کا عملی ثبوت دیکھنے کو ملا۔ سابق صدر آصف علی زرداری اس گٹھ جوڈ کے میزبان تھے ۔ سابق نا اہل وزیراعظم نواز شریف نے بھی اس کانفرنس میں  ورچوئل خطاب کر کے اپنا حصہ ڈالا ۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا تھا کہ اس حکومت سے جمہوریت کو خطرہ ہے ۔ برائے نام جمہوریت ہے اور دو سال تک اس جمہوریت کا مزاق اڑایا گیا اور کہا گیا کہ اب مزید یہ کھلواڑ برداشت نہیں کیا جائے گیا ۔ حزب اختلاف اس کے خلاف مل کر کوئی حکمت عملی اپنائے ۔اس معاملے پر تمام جماعتیں متفق اور متحد  ہیں ۔ اس کے علاوہ عاصم باجوہ کو ان کے  منظر عام پر آئے اثاثہ جات کی  بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔