انسان اپنی زندگی میں بہت کچھ کرتا اور سیکھتا ہے۔ انسان جب زندگی کی ایک خاص دھن پر نکل پڑتا ہے تو اسے کسی دوسری چیز کاخیال ہی نہیں رہتاہے۔ بعض لوگ اس کو کام سے محبت قرار دیتے ہیں اور بعض اسے اپنی زندگی کو کسی ایک مقصدکے حصول کے لیے تباہ کرنا قرار دیتے ہیں
لیکن اگر آپ تھوڑی سی تحقیق کریں توآپ بآسانی سمجھ جائیں گے کہ ان نقتہ نظر کے ساتھ دو ہی لوگ جڑے ہوتے ہیں ایک وہ جو کام کو عبادت بنا لیتے ہیں یہی لوگ ظاہری و حقیقی دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں اور دوسرے نظریے کے لوگ آپ کو زیادہ تر کم عقل کام چور اور محنت سے خائف نظر آئیں گے۔ اس کی بنیادی وجہ بڑی ہی دلچسپ ہے۔انسان کی بنیادی فطرت یہ ہے کہ وہ کام کرنا اور بوجھ لینا پسند کرتا ہے۔لیکن پھر یہ لوگ کہاں سے آتے ہیں جوکام کو عبادت میں خلل کہ کر ٹال دیتے ہیں۔ یہ فطرت ہم میں پیدا ہوتی کیونکہ ایک مثال سمجھیے کہ جب ایک گاڑی یا جنریٹر کافی عرصہ بند پڑا رہتا ہے تو اس کے بعد جب آپ اسے چلانے کی کوشش کریں گے اول تو چلے گا ہی نہیں.
یا پھر اس کی بیٹری یا سلف میں خرابی آجائے گی۔بالکل اسی طرح جب انسان کوئی کام نہیں کرتی تو اس کی بھی فطرت میں خرابی آجاتی اور پھر وہ انجن کی طرح کہتا ہے کہ بھائی دنیا میں آنے کا مقصد عبادت ہے نا کہ کام اب آپ ایسے شخص کو آسانی سے یہ کبھی بھی نہیں سمجھا سکتے کہ بھائی کام کرنا بھی عبادت ہے۔ اب بات آتی ہے کہ چلو جو لوگ اس عادت کا شکار ہوگئے ہیں وہ اس صرف اتنا کریں کہ اگر صبح دیر اٹھتے ہیں تو جلد اٹھیں اور اگر رات جلدی سوتے ہیں تو تھوڑا دیر سے سوئیں لیکن صبح جلدی اٹھیں یہ کام سب سے پہلے کریں پھر اپنی روٹین میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کا اضافہ کریں امید ہے جلد اس میں بہتری ہوگی۔
دوسری بات یہ کہ ہم جو ابھی اس بیماری یا عادت کہ لیں اس سے خود کو کس طرح محفوظ رکھیں اگر کبھی مستقبل میں اس طرح کے حالات پیش آئیں۔ہمیں سب سے پہلے سمجھنا ہوگا کہ اس طرح کے حالات پیدا کب ہوتے ہیں کیوں آخر ایک اچھا بھلا مصروف شخص کام چوروں کی فہرست میں آجاتا ہے۔ آپ ذرا غور کریں ہم میں سے وہ لو گ جو حقیقی طور پر بہت زیادہ کام کرتے ہیں مثال کے طور پر دفتر یا سکول کالج کا کام گھر پر بھی کرتے ہیں یا پھر میں خود اٹھارنہ گھنٹے بھی کام کرتا رہتا ہوں تو اس کا مطلب ہم لوگ جو بہت کام کرتے ہیں یا جن کے پاس آرام یا بریک لینے کا وقت نہیں ہوتا وہ بیچا رے اس کا سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں کیوں کہ چرچل کہتا تھا میں تھکنے سے پہلے آرام کر لیتا ہوں.
اس لیے میں کبھی بھی نہیں تھکتا۔ اب وہ ایسا اس لیے کہتا تھا کیونکہ جب ایک انسان تھک ہار کر آرام کے لیے جاتا ہے اور جب وہ اپنے کام کی طرف پھر سے لوٹتا ہو تو اس میں وہ پہلے والی جہت اور چستی نہیں ہوتی اور کام اس کو اب عذاب لگنے لگتا ہے۔ وہی پر ایسا شخص جیسے میں خود بھی کرتا ہوں جب بھی مجھے اپنے کام سے تھوڑی سی بھی اکتاہٹ یا آرام کی خواہش ہوتی ہے میں فوراََ اس دن اپنے اوپر سارا اگلے تین دن کا بوجھ ڈال کر چاہے میں بیس گھنٹے بعد اپنے کمپیوٹر سے اٹھوں پھر اگلے تین دن نا لوٹنے کا بندو بست کر لیتا ہوں۔اب چونکہ میں جسمانی یا ذہنی لحاظ سے زیادہ تھکا بھی نہیں تھا صرف تھکان سے ایک قدم پیچھے تھا اور بجائے اس کے کہ مجھے مجبوراََ چھٹی لینی پڑتی میں نے خود سے پہلے ہی چھٹی کرلی آپ یقین جانے میں چھٹی کے تین دن مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنے کام پر لوٹ آتا ہوں کیونکہ مین تھکان زدہ نہیں ہوتا تو دل چھٹی کرنے میں نہیں لگتا اور طبیعت یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اپنے کام پر لوٹ چلواور جب میں اپنے کادوبارہ آغاز کرتا ہوں تو مجھے ذیادہ مزہ آتا ہے۔آپ بھی ونسٹن کے قول پر عمل کریں اور اپنی صلاحیتوں کے ضائع ہونے سے پہلے انہیں مزید بہتر بنا لیں۔
انسانی رویے پر مزید دلچسپ تحریر پرھنے کے لیے کلک کریں
0 تبصرے