کچھ وقت پہلے آئی ایس پی آر کا بیان سامنے آیا جس میں ترجمان کا کہنا تھا کہ محمد زبیر نے دو بار آرمی چیف سے ملاقات کی ۔دونوں ملاقاتیں محمد زبیر کی درخواست پر کی گئیں ۔ ایک ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے۔



ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ان ملاقاتوں کی نوعیت شریف خاندان سے متعلقہ تھی۔ اس کے علاوہ محمد زبیر کی باتوں کے جوابات میں آرمی چیف کا بیان دو ٹوک تھا کہ یہ جمہوری باتیں ہیں اور انہیں پارلیمنٹ میں ہی حل ہونا چاہیے۔ ترجمان آئی ایس پی آر کے اس بیان کے بعد یہ نیوز ہیڈ لائین بن گئی اور آج کے بیشتر ٹاک شوز کا موضوع بھی۔ محمد زبیر نے اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا کہ میری آرمی چیف سے کافی پرانے تعلقات ہیں۔ ایک ملاقات اسد عمر کے بیٹے کی شادی پہ ہوئی تھی ۔ میں نے ملاقاتوں میں واضح کر دیا تھا کہ  کسی ریلیف کے کیے نہیں آیا۔ اگر کسی کے کہنے پر ملاقات کی ہوتی تو ان ملاقاتوں کا علم نواز شریف اور شہباز شریف کو ضرور ہوتا جبکہ انہیں بعد میں  آگاہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ مجھ پر کوئی کیس نہیں ہے ۔نہ مجھے کسی نرمی کی ضرورت ہے۔ اور نہ میں نے نواز شریف اور مریم نواز کے لیے کسے ریلیف کی درخواست کی ۔یہ ملاقاتیں ذاتی نوعیت کی تھیں۔ 

سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ان کے اس بیان کا مقصد کیا ہے یا  کس وجہ سے ترجمان کو ان ملاقاتوں کی تشہیر کی ضرورت پیش آئی۔ ایک نجی چینل پر جب اس معاملے پر بات کرنے کے لیے شیخ رشید کو بلایا گیا تو ان کا دیگر انکشافات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ ملاقاتیں ہوئی ہیں اور ان ملاقاتوں میں خواجہ آصف اور احسن اقبال بھی شامل تھے 
 مزید ان ملاقاتوں کا دورانیہ بھی بتایا گیا کہ ایک ملاقات پانچ گھنٹے پر محیط تھی جبکہ دوسری ملاقات کا دورانیہ ساڑھے تین گھنٹے تھا ۔ میزبان کو جھڑکتے ہوئے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ہمیں اس معاملے میں نہ گھسیٹا جائے پھر بعد میں آپ لوگ ہم پر ہی باتیں کر رہے ہوتے ہیں اور اگر مزید مجبور کیا گیا تو تیسری ملاقات کے بارے میں بھی بتا دوں گا۔
اس معاملے پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ یہ ملاقاتیں خفیہ نہیں تھیں اور یہ فوج کی طرف سے ہی منعقد کی گئی تھیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے بیانات اس معاملے پر مختلف ہیں حتیٰ کہ ن لیگ کے ارکان کے بیانات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ اے پی سی کے میڈیا ٹاک کے ایک دن بعد ہی اس نئے پینڈورا باکس کا کھلنا اپنے آپ میں ایک انوکھا واقعہ ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے اور کس تناظر میں یہ بیانات جاری کیے گئے ۔ ان کا بنیادی مقصد کیا تھا ان سب سوالات کے جوابات وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آتے رہیں گے۔