راحت اندوری(اب مرحوم) اردو کے عظیم شاعرجن کا شمار ان چند شحصیات میں ہوتا ہے جو اپنی تمام عمر ایک روشن ستارے کی طرح چمکتے رہے اور چاہے جیسا دور ہواور جیسی حکومت ہو ان کا ستارہ ہمیشہ ہی چمکتا رہا اور جب وہ اس دنیا سے کوچ کر گئے تو انھیں زبردست خراجِ  تحسین سے نوازا گیا۔آہ! اس ظالم وباء نے ہم سے ایک اور محبت کا ترجمان چھین لیا 


راحت اندوری احمد ندیم قاسمی کے ہم عصر تھے۔ اور جب وہ حیات تھے تو راحت اندوری ان کی وفات کے بعد پاکستان کے شہر کوئٹہ میں منعقد ہونے والے ایک مشاعرے کا نہایت ہی دلچسپ اور مزاحیہ واقعہ بیان کرتے ہوئے لوٹ پوٹ ہوتے واقعہ کچھ یوں ہے کہ مشاعرہ جاری تھا اور سامعین میں سے کوئی جذباتی شخص ہر مصرعے پر سبحان اللہ کہ اٹھتے جب کافی دیر یہی سلسلہ جاری رہا تو احمد ندیم قاسمی نے تنگ آکر ان جناب سے کہا کہ حضرت صاحب خیریت تو ہے اللہ کو اتنا یاد کر رہے ہیں اگر اللہ نے آپ کو ایک مرتبہ یاد کر لیا تو آپ دوبارہ کبھی خدا کو یاد کرنے لائق نہیں رہیں گے جس پر پورا پنڈال قہقہ سے گونجنے لگااور وہ شخص بھی خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔یہ راحت اندوری کی احمد ندیم قاسمی کے ساتھ جڑی ایک خوبصورت اور پر مزاح یاد تھی لیکن پھر یہ جوڑی ۶۰۰۲ میں ٹوٹ گئی کیونکہ احمد ندیم قاسمی کے ساتھ زندگی نے وفا نہ کیا اور وہ اپنے دوست کو دارلفنا میں اکیلا چھوڑ کر دارالبقا کی طرف کوچ کر گئے۔

راحت اندوری نے جو اشعار کہے وہ اردوشاعری، زبان وادب اور باذوق افراد کا ایک بیش بہا خزانہ ہیں ہی لیکن اس کے الاوہ اُنھیں جو چیز سب سے مختلف اور منفرد بناتی ہے وہ ان کی ہر دور میں بڑھتی مقبولیت ہے۔ اگر آپ سن 2000 سے 2010 کا جائزہ لین تو اس دور میں جب نئی ٹیکنالوجی نے ہر طرف اپنا سحر طاری کر رکھا تھا اور اکثر و بیشتر شعرا جن کی مقبولیت میں کمی آنے لگی اور ایک دور ایسا بھی آیا کہ لوگ سوچنے لگے کہ اب شائد پاک و ہند سے شاعری کا زوق اور شوق ختم ہو گیا کیونکہ نئے شعرا کرام آ گے آنے سے ڈرنے لگے کہ اس دور کے نو جوان جو کسی بھی شاعر کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیتے تھے اب شاعری کی الف، ب بھی نہیں جانتے لیکن شاعری کے اس سیاہ دور میں راحت اندوری آندھی میں ایک مضبوط درخت کی طرح ڈت کر کھڑے رہے۔ اور ہر دور کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے آپ نے جو اشعار کہے لگ بھگ سن 2009 اور 1010 میں آکر انھوں نے ایک بار پھر نوجوان دلوں کے تاروں کو ہلا دیا اور ایک بار پھر اس نفسا نفسی کے دور میں ان کےاشعا ر نے نوجوان دلوں میں محبت کی پینگیں ڈالنا شروع کر دیں۔اس طرح اردو شاعر ی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

جو کہ آج اندوری کی وفات تک اپنے عروج ِ بام کو پہنچ چکا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ راحت اندوری کے اردو ادب پر احسان ہیں تو کسی طور غلط نہ ہوگا  آج پوری دنیا جو اردو بولتی سنتی پڑھتی اور سمجھتی ہے وہ راحت اندوری کے شعر کو سنتی پسند کرتی ہے اور اگر ہم راحت اندورکیے کلام کو پرھ کر غور سے جائزہ لیں تو انکا  کلام کہیں  نا کہیں ہم سب کے دل کا پیغام ہے، ہمارے دل کی آواز اور ہمارے بھاوناوں کی  ترجمان ہے۔ راحت اندوری ہر دور ہر زمانے چاہے وہ ماضی،حال یا مستقبل ہو ایک چمکتا ستارہ ہیں اور پاک و ہند میں اپنا ایک اعلیٰ مقام رکھتے ہیں انہوں نے مشکل وقت ہم جب حکومتوں کی طرف سے ظلم اور زباں بندی رواگ تھی تب بھی وہ عوامی امنگوں کے ترجمان بنے اور انقلابی اشعار کہے جو سر حدوں کے پار بھی گونجے اور اگر ہم کہیں کہ راحت سرحدوں سے ماورا ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ ہم اپنی اس خراج تحسین پیش کرنے کی تحر یر میں یہ دعا کرتے ہیں کہ خدا وند کریم اللہ تعالیٰ ان کو قبر میں راحت اور جنت میں کروٹ کروٹ  جگی نصیب فرمائے 

 آمین!