تحریر: رمشا یاسین (کراچی)

 بعض اوقات میڈیا پر ایسے پروگرامز نشر کیے جاتے ہیں جن کا نہ تو کویئ مقصد ہوتا ہے اور نہ وہ ہمیں شارٹ ٹرم یا لانگ ٹرم کوئی فائدہ پہنچاسکتے ہیں بلکہ ایسے پروگرامز سے معاشرے کو الٹا نقصان ہی ہوتا ہے۔ مثلاً مارننگ شوز۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ مارننگ شوز کا کیا مقصد ہے؟ 



کیا یہ معاشرے کی فلاح و بہبود  یا انسانیت کی ترقی کے لیئے ہیں؟بد قسمتی سے ان میں سے کچھ بھی نہیں۔ بلکہ ان کے ذریعے سے معاشرے میں مزید بگاڑ، خرابیاں،اور فحاشی و عریانی کو فروغ دیا جارہا ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو برباد کردیا جاے ئ۔ بجاے ئ اس کے کہ حقیقی مسائل پر بحث و مباحثے ہوں،قوم کو Educate کیا جاے ئ، یاحقوق و فرایئض کو زیرِ بحث لایا جاے ئ،چند ایک کو چھوڑ کر ان میں سے اکثر شوزمیں آپ کو سراسر فضول باتیں، جگت بازی، ناچ گانا، چھوٹی چھوٹی بچیوں کو قوم کے سامنے نچوانا، فضول رسم و رواج،اور بے ڈھنگے طریقے سے ٹھٹھے مارتے ہوے ہی سب دکھائی دیں گے۔آپ ان مارننگ شوز میں کبھی بھی علمی، دینی اور اخلاقی گفتگو کرتے ہوے ئ کسی کو نہیں سنیں گے بلکہ لوگوں کا مذاق اڑاتے ہوے ئ، اور ان کے ذاتی گھریلو مسایئل پر بحث کرتے ہوے ئ ہی پائیں گے۔
یہ چاہے کسی بھی موضوع پر گفتگو کر لیں، اِن کا علم انتہائی سطحی قسم کا ہوتا ہے، اور ان کی گفتگو معیار سے گری ہوئی ہوتی ہے جس کی وجہ سے دیکھنے والے ان سے علم حاصل کرنے کے بجاے ئ مزید جہالت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھیئے، جیسے ہی رمضان المبارک اور ماہِ محرم شروع ہوتا ہے، تو خواتین اپنا ناچ گانا چھوڑ کر، شرافت کی دیویاں بن کر، سر پہ ڈوپٹے اوڑھ کر مذہبی پروگرامز کی میزبانی شروع کردیتی ہیں حالانکہ ان کا اسلام سے کیا واسطہ؟  وہ(نیم ملا خطرہِ ایمان) والی مثال بن کر اپنا اور پوری قوم کا ایمان خطرے میں ڈا ل دیتی ہیں۔ اور جوں ہی یہ ماہِ مقدس ختم ہوتے ہیں، ان کی فحاشی پھر سے شروع ہوجاتی ہے۔اور اس فحاشی کا ذمے دار ہے ہمارا میڈیا، چینلز، شوز کے پروڈیوسرز اور ڈایئریکٹرز۔ان لوگوں کا مقصد صرف اور صرف اپنی ریٹنگز بڑھانا ہے، اب چاہے ریٹنگز نیگیٹو ہی کیوں نہ ہوں، کوئی ان پر بات تو کررہا ہے، بس اور کیا چاہییئ؟ پھر چاہے انہیں کسی کے جذبات سے ہی کیوں نہ کھیلنا پڑے، انہیں صرف اپنی شہرت، اور ریٹنگز ہی سے مطلب ہے۔    
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ۴ ستمبر کے دن ایک ۵ سالہ معصوم بچی کا ریپ ہوا۔ ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ایک مارننگ شو کی میزبان نے اس معصوم کے باپ اور دادا دادی کو اپنے شو میں بلوالیا، تاکہ ان کے زخموں کو کرید سکے۔ یا پھر اس لیئے، کہ لوگ میزبان کے اس قدم کو بہت سراہیں اور کہیں کہ بھیئ دیکھیں، کتنی انسان دوست ہیں، کتنا دکھ درد رکھتی ہیں وہ انسانیت کے لیئے اپنے دل میں۔ اور کس طرح  وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ چلیں ٹھیک ہیں، آپ بہت درد رکھتی ہیں اپنے دل میں، لیکن اگر آپ کو آواز اٹھانی ہی تھی تو آپ اس معصوم کے گھر والوں کو بلاے ئ بغیر بھی تو اٹھا سکتی تھیں، ایسے میں لوگ واقعی آپ کو سراہتے۔ لیکن نہیں! آپ نے انہیں بلایا اور ان سے ایسے گھٹیا اور بیہودہ سوالات کیے کہ اس بچی کی دادی وہاں بیٹھے بیٹھے رونے لگیں۔ کسی سے بار بار اس سانحہ کے بارے میں پوچھنا جو کہ اس کے لیئے ناقابلِ برداشت ہو، کہاں کا انصاف ہے؟ میزبان صاحبہ کیا پوچھتی ہیں ان سے، کہ آپ کی بچی کا ریپ ہوا، کیسا لگا آپ کو؟ اچھا، تو اگر کسی کی اولاد کا ریپ ہوجاے ئ تو اسے کیسا لگنا چاہیئے؟ اور پھر آپ نے توحد کردی یہ پوچھ کر کہ اچھا، آپ کو آپ کی بیٹی ملی، کیسے پہچانا آپ نے اسے؟ اور آپ کو کیسے پتا چلا کہ اس کے ساتھ ریپ ہوا ہے؟ مطلب اب آپ کو شعور کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی دینی پڑے گی یا تعلیم سے آپ کو شعور ہی نہیں ملا؟ 
آپ کو اتنا نہیں پتا کہ بچی کا میڈیکل کروایا تو پتا چلا کہ کیا ہوا اس کے ساتھ! لیکن آپ کو کیا فرق پڑتا ہے؟ آپ کو تو بس اپنی ریٹنگز سے مطلب ہے۔ اور ہمارا پیمرا؟ وہ کیا کررہا ہے؟ اس کی آنکھوں پر تو جیسے پٹی بندھ گیئ ہے کہ اس نے ایسے شوز کو بند کرنے کے بجاے ئ ان کو کھلی چھوٹ دی ہویئ ہے۔اس پروگرام پر لوگوں نے اتنا شور مچایاکہ اس شو کو بندکیا جاے ئ، لیکن پیمرا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔اور جب میزبان نے دیکھا کہ بات تو بگڑ گیئ ہے تو انہوں نے اپنے اگلے مارننگ شو میں اپنی اس حرکت کی معافی بھی مانگی۔ لیکن معافی مانگنے کا انداز بھی عجیب ہی تھا کہ ان کی معافی سے متاثرہ خاندان کو مزید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔معافی مانگتے ہوے ئ انہوں نے کہا کہ میرا ایسا کویئ مقصد نہیں تھا کہ میں کسی کا بھی دل دکھاؤں بلکہ میں تو چاہتی تھی کہ بچی کے خاندان والوں کو انصاف ملے۔ چونکہ ان کی FIR کویئ درج نہیں کررہا تھا تو اسی لیئے انہوں نے خود میڈیا کی مدد لی، اور ہم سے کانٹیکٹ کیا۔ اور جب میں نے شو کیا تو اس کے اگلے دن FIR بھی درج ہوگیئ اور ملزم بھی گرفتار ہوگیا۔
 واہ بھیئ، کیا اندازِ بیان ہے اور کیا شان ہے آپ کی کہ غریب لوگ، جن کے گھر میں ایک وقت کا کھانانہ ہو، ان کے پاس آپ کا نمبر ہوتا ہے۔ تو مطلب اب غریب لوگ بھی بڑی پہنچ رکھتے ہیں کہ فوراً سے میڈیا تک پہنچ گیئ؟ نبیل نام کے ایک ایکٹیوسٹ نے خود بچی کے گھر جاکر اس کے گھر والوں سے پوچھا کہ کیا آپ نے میڈیا کو اپروچ کیا تھا؟ اور کیا واقعی اس سے پہلے آپ لوگوں کی FIR درج نہیں ہورہی تھی؟تو بچی کے باپ  اور تایانے صاف انکار کردیا کہ ہم نے نہیں بلکہ اس سارے معاملے کے بعد میڈیا نے خود ہم سے رابطہ کیا، اور ہم تو غریب لوگ ہیں، ہمارے میڈیا سے تعلقات نہیں ہیں۔ اور FIR تو پہلے ہی درج ہوگیئ تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ میزبان نے ریٹنگز بڑھانے کے لیئے جذبات کا کھیل کھیلا،  اور پھر اپنی عزت بچانے کے لیئے دوبارہ انہیں مظلوم لوگوں کے نام پر،جھوٹ بولے۔ 
عوام کا اور میرا سوال تو بس یہی ہے کہ پیمراآخر کس چیز کا انتظار کررہا ہے؟کیوں وہ خاموش تماشایئ بن کر بے حسی کے اس کھیل کو مزید بڑھاوا دے رہا ہے؟ پورا پاکستان چیخ رہا ہے کہ اس میزبان کے شو کو بندکرو لیکن نہیں، کیوں کریں گے بند؟ آخر سب میڈیا والوں کو اپنے شو کے لیئے اشتہارات اور ریٹنگز جو چاہیئیں۔ کیوں انسانیت کا جنازہ نکالنے پر سب تلے بیٹھے ہیں؟ 
اور پیمرا کا تو کیا ہی کہنا!ماشاء اللہ وہ تو بڑی نیک نامی کما رہا ہے۔پیمرا والوں سے گزارش ہے کہ بھایئ آپ لوگ معاشرے کو کہاں لے جانا چاہتے ہو؟ یہ کس کا ایجنڈا ہے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس ایجنڈے کے اثرات ہمارے پورے معاشرے کو انسانیت سے گراکر شیطانیت کی سطح پر لے آیئیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب، قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: کہ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا فرمایا ارور پھر اسے اسفل السافلین کی گھاٹیوں میں پھینک دیا(سورہ تین)۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان نے انسانیت کو وہ زخم دیے ہیں،و ہ ظلم کیے ہیں، اور  وہ راستے دکھاے ئ ہیں، کہ ابلیس تو بیچارہ وہاں تک سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہم بحیثیتِ انسان شیطان کے بہت بڑے خدمت گزار بنے ہوے ئ ہیں۔ وجہ اس کی صرف یہ ہے کہ ہمیں تو دنیا کی ہی زندگی چاہیئے۔ہمیں آخرت سے کیا مطلب؟ہمیں اللہ سے ملنے کی امید ہی نہیں ہے۔ہماری سوچ صرف اور صرف دنیا کی خواہشات،  لذتوں اور فایئدوں تک ہی محدود ہے۔اگر ہمیں اپنے رب سے ملاقات کا یقین ہوتا تو ہم میڈیا کے ذریعے سے اپنی عوام کو جو دکھا رہے ہیں، ہم کبھی اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں پاتے، ہمت کرنا تو دور کی بات ہے۔ میری خواہش اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بحیثیتِ قوم کے اور بحیثیتِ مسلمان کے سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرماے ئ۔ آمین، ثمہ آمین۔

   رمشا یاسین کی مزید دلچسپ تحریر پرھننے کےلیے دیے گے لنک پر کلک کریں

کشش کا قانون 

عورت کی حُرمت (آزاد نظم)