( رمشا یاسین (کراچی 

خدا کے نام پہ سجدے میں سر جھکنا عبادت ہے۔ 
 وہ دل اللہ کا گھر ہے کہ جس دل میں محبت ہے۔
میرا جینا عبادت ہے، میرا مرنا محبت ہے۔
  محبت ہے خدا جیسی، خدا ہی تو محبت ہے۔ 
اللہ نے انسان کو محبت سے پیدا کیا اور محبت اس کے وجود میں سمودی۔  وہ محبت جس کی تلاش انسان کو ساری زندگی رہتی ہے۔



وہ محبت جو ایک سمندر ہے کہ جس میں ڈوبے بغیر انسان کبھی خود کو پا نہیں سکتا۔ وہ محبت جو موت سے پہلے موت ہے۔ وہ محبت جو موت سے زندگی تک کا سفر ہے۔ وہ محبت جو بے سکونی سے سکون تک کا سفر ہے۔وہ محبت جووجود کو جلا کر راکھ کردے، خاک کردے، اور جب تک خاکی نہ ملے، دوبارہ زندگی کیسے نصیب ہو؟ وہ محبت جس کا میم  فقط میں اور موت کے دایئرے میں گھومتا ہے۔وہ محبت جو مجاز سے شروع ہوکر حقیقی تک جا پہنچتی ہے۔وہ محبت جو ایک انسان کو دوسرے انسان کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیتی ہے۔ وہ محبت جو انسان اپنے لیے کرتا ہے،دنیا سے امید لگاتا ہے کہ دنیا بھی اس سے ویسی ہی محبت کرے جیسی اس نے دنیا کو دی۔ وہ محبت جو انسان محض اس لیے کرتا ہے تاکہ اسے سکون حاصل ہو۔ مگر اسے سکون نہیں ملتا کیوں کہ یہ تو سکون غارت کرتی ہے۔وہ محبت جو حرام رشتے جڑواتی ہے۔ وہ محبت جو گناہ تک لے جاتی ہے۔کیوں کہ یہ محبت گناہ ہے۔وہ محبت جو پھر دھوکا دیتی ہے۔ وہ محبت جو ٹھوکریں مارتی ہیں۔ وہ محبت جو ایک انسان دوسرے انسان سے اس لیے کرتا ہے تاکہ بدلے میں اسے بھی محبت ملے۔ اور جب نہیں ملتی تو وہ پل پل مرتا ہے۔ اسے موت آجاتی ہے۔ موت سے پہلے موت۔ ایسی موت جو میں کے سفر سے شروع ہویئ ہوتی ہے۔
 اب جاکر حقیقت کا پتا چلتا ہے۔ اب جاکر وہ جان پاتا ہے کہ دنیا کبھی بھی محبت نہیں دے سکتی۔ یہاں رہتا ہر وہ انسان جس سے تم نے امید لگائی، وہ کبھی بھی تمہاری امیدوں پر پورا نہیں اتر سکتا۔اور یہاں رہتی ہر وہ چیز جس کے پیچھے تم بھاگتے ہو، تمہیں غلط کام کرنے پر مجبور کردیتی ہے اور غلط کاموں میں بھلا کس کو سکون ملا ہے؟یہی ہے حقیقت کا سفر، جب انسان دنیا سے محبت کی امید لگانا چھوڑ دیتا ہے۔ جب انسان اللہ سے محبت کرنے لگتا ہے۔اور یہ محبت گناہ سے خدا تک لے جاتی ہے۔ جب اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اصل محبت تو اللہ کی محبت ہے۔ اور یہ اللہ سے جتنی محبت کرو گے، وہ بدلے میں تمہیں اس سے دس گناہ زیادہ محبت دے گا۔ کیوں کہ وہ دنیا نہیں، وہ دھوکا نہیں، حقیقت ہے۔ اور یہی حقیقت محبت کا ح ہے۔ اور یہی وہ حقیقت ہے جب انسان اس آیت کو سمجھتا ہے: اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں (سورۃ ق)۔ اور تب جاکر انسان اللہ کی محبت کو اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔ 
وہ یہ جان لیتا ہے کہ جس محبت کو دنیا بھر میں تلاشتا پھر رہا تھا، وہ محبت تو اس کے اندر موجود تھی۔پھر انسان اللہ سے محبت کرنے لگتا ہے۔ اپنی تمام امیدوں کا مرکز اسی کو بنالیتا ہے۔ پھر وہ دنیا کے سامنے نہیں روتا، اپنے اللہ کے سامنے گڑگڑاتا ہے۔ پھر وہ دنیا سے دل لگی نہیں کرتا، وہ اللہ کو دل میں بساتا ہے۔ وہ دوسرے انسان کے سامنے نہیں جھکتا، صرف اللہ کے آگے جھکتا ہے۔اور یہی وہ اصل ہے جب انسان اپنے آپ کو پہچانتا ہے۔ جب انسان اپنی عزت کو پہچانتا ہے کیوں کہ وہ اللہ کی عزت کو پہچان چکا ہوتا ہے۔ وہ یہ قبول کرچکا ہوتا ہے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیئے ہیں، اسی لیئے وہ دنیا کی خوش آمدیں کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ وہ یہ قبول کر چکا ہوتا ہے کہ تمام محبتوں پر صرف اور صرف اللہ کا حق ہے اور اللہ کی تجلی تو اس کے اندر موجود ہے۔ اور پھر اسے اللہ کی طاقت پر یقین ہونے لگتا ہے اور یہی یقین اسے اپنی طاقت کو پہچاننے میں مدد دیتا ہے۔
 یہی یقین اسے خود پر بھروسہ کرنے کی ہمت دیتا ہے۔  اور پھر وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اللہ کے بھروسے کرتا ہے اور کامیابی اس کا مقدر بنتی ہے۔ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے، اللہ کے بتایئے ہویئے طریقوں کے مطابق کرتا ہے۔ ہر حرام رشتے کو چھوڑ دیتا ہے۔ جس محبت کی تلاش اس نے اللہ کے خلاف جاکر حرام رشتوں میں کی ہوتی ہے۔ اب اللہ اسے سچی محبت سے نوازتا ہے، حلال رشتے کے ذریعے۔ نکاح کی بدولت۔ اور کیا وجہ ہے کہ نکاح ہوتے ہی د و اجنبی  انسانوں کے درمیان محبت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ زندگی بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کا وعدہ کر لیتے ہیں۔ کیوں کہ یہ رشتہ اللہ کے نام پر جڑتا ہے، اللہ کے لیئے جڑتا ہے، تو اللہ ہی محبت پیدا بھی کرتا ہے۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے: اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے جنس سے تمہارے لیئے بیویاں بنایئیں تاکہ تم ان کے پاس سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی، یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیئے جو غور و فکر کرتے ہیں (سورۃ الروم)۔  یعنی محبت صرف انہیں رشتوں میں ہے جو اللہ کے نام پر قایئم ہوتے ہیں۔ اور ان میں محبت پھر اور بھی پھلتی ہے اگر وہ اپنے رشتوں کو اللہ کے بتایئے طریقوں کے مطابق ہی قایئم ودایئم رکھیں۔
حق و فرض کو نبھایئیں۔اور پھر اللہ کی یہ محبت اسے ہر گناہ سے بچاتی ہے۔کیوں کہ وہ کویئ بھی غلط کام کرنے سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے، وہ مجھ سے ناراض ہوگا۔ وہ اللہ سے خوف کھاتا ہے۔ اور وہ اپنے پچھلے گناہوں کی اللہ سے بار بار معافی مانگتا ہے اور خود کو پاک رکھتا ہے۔اور بے شک، یہی ادا تو اللہ کو بہت پسند ہے۔ اللہ فرماتا ہے:اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں (سورۃ البقرۃ)۔ اور جو لوگ برے عمل کریں پھر توبہ کرلیں اور ایمان لے آیئیں تو یقیناً اس توبہ و ایمان کے بدلے تیرا رب درگزر اور رحم فرمانے والا ہے (سورۃ الاعراف)۔
 پس! یہی محبت پھر اسے اللہ سے محبت کرتے کرتے اللہ کے لیئے محبت کرنے تک لے جاتی ہے۔ اور پھر انسان اپنے تمام رشتوں سے اللہ کے لیئے محبت کرتا ہے۔ اللہ کے لیئے انسانیت کا درد اپنے دل میں رکھتا ہے۔ اللہ کے لیئے مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔اس کی زندگی کا ہر مقصد اللہ کے نام ہو جاتا ہے۔وہ کویئ بھی کام کرنے سے پہلے بس یہی سوچتا ہے کہ یہ میں اللہ کے لیئے، اس کی خوشنودی کے لیئے کررہا ہوں۔پھر اسے نہ تو اپنی جان کی، نہ ہی اپنے مال کی فکر رہتی ہے۔وہ اللہ کے لیئے سب قربان کرسکتا ہے۔ اور وہ اللہ کے لیئے نہ ہی حرام ذرایع سے کچھ بھی کمانے کی کوشش کرتا ہے چاہے وہ مال ہو یا شہرت۔ وہ اللہ کے لیئے پھر اپنے مال کا حصہ اس کی راہ میں وقف بھی کرتا ہے۔ وہ پھر دنیا والوں سے محبت کرتا ہے تو اپنے لیئے نہیں، اللہ کے لیئے۔ اور اسے دنیا سے اس کے بدلے کی کویئ امید نہیں ہوتی کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اللہ ہی اسے اس کا بدلہ دے گا۔ اور بے شک اللہ دے گا۔ اللہ اپنے وعدوں میں سچا ہے۔
 حدیث میں آتا ہے: اللہ آخرت کے دن فرمایئے گا، کہاں ہیں وہ لوگ جو ایک دوسرے سے میرے لیئے محبت کرتے تھے؟ آج میں انہیں اپنے سایئے تلے پناہ دوں گا جب کہ دوسرا اور کویئ سایہ نہیں ہوگا (صحیح مسلم)۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ: جس انسان میں بھی یہ تین صفات ہوں گی، وہ ایمان والا ہوگا، ایک وہ جو اللہ اور اس کے رسول سے ہر چیز سے بڑھ کر محبت کرتا ہو، دوسرا وہ جو اللہ کے بندوں سے صرف اللہ کے لیئے محبت کرتا ہو، تیسرا وہ جو ایمان لا کر نہ مکرے اس خوف سے کہ وہ جہنم میں پھینک دیا جایئے گا (صحیح بخاری)۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو کبھی کسی کا برا نہیں چاہ سکتے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ کے لیئے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ کے لیئے جیتے ہیں اور اسی کے لیئے مرتے ہیں۔  ان کی محبت بیان سے باہر ہوجاتی ہے۔ گمان سے باہر ہوجاتی ہے۔ پھر ان کے نزدیک میں یا موت نہیں ہوتی۔ صرٖف تو ہی تو ہوتا ہے۔ صرف اللہ ہوتا ہے۔فقط زندگی ہوتی ہے۔ سوا سکون کے کچھ نہیں ہوتا۔ رنج، رنج نہیں رہتا۔ غم، غم نہیں رہتا۔ یہی ہے سفر موت سے زندگی تک کا۔ یہی ہے سفر زمین سے آسمان تک کا۔یہی ہے سفر مجاز سے حقیقت تک کا۔ یہی ہے سفر دنیا سے آخرت تک کا۔ محبت اور بس محبت!   

رمشا یاسین کی مزید دلچسپ تحریر پرھننے کےلیے دیے گے لنک پر کلک کریں

کشش کا قانون 

عورت کی حُرمت (آزاد نظم)