علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی پاکستان میں فاصلاتی نظام تعلیم فراہم کرنے والی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے۔ پاکستان میں فاصلاتی تعلیم کا آغاز بھی اسی یونیورسٹی نے کیا۔ اس کا شمار ایشیاء کی سب سے بڑی فاصلاتی تعلیم دینے والے جامعات میں ہوتا ہے۔ یہ یونیورسٹی 1974 میں قائم ہوئی اور تب سے تعلیم دینے کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان میں جہاں خواتین کو باہر نکلنے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس ماحول میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے خواتین کےلئے گھر بیٹھے کسی بھی شعبے کی تعلیم حاصل کرنے کو ممکن بنا دیا اور تعلیم ان کے گھر تک پہنچا دی۔ فاصلاتی تعلیمی نظام ایسا تعلیمی نظام ہے جس کے ذریعے آپ گھر بیٹھے کسی بھی مضمون اور جماعت کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔
مہلک عالمی وباء کرونا وائرس کی پاکستان آمد سے قبل علامہ اقبال یونیورسٹی نے بہت سے شعبہ جات کی ورکشاپس منعقد کرنے کا اعلان معمول کے مطابق کر رکھا تھا۔ ان پروگرامز میں بی۔ایڈ ایم۔ایڈ اور دیگر کئی جماعتیں شامل تھیں۔ کرونا کی وجہ سے جب حکومت کی طرف سے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تو تمام ادارے بند کر دیے گئے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے بھی اپنے تمام پروگرامز کی
ورکشاپس مؤخر کر دیں۔ بعد ازاں جب لاک ڈاؤن طویل تر ہوتا گیا اور سیشن کے امتحانات کا وقت قریب آیا تو جامعہ نے بی۔اے اور بی۔کام کے طلباء کو ان کی سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر پروموٹ اور پاس کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ دیگر کئی پروگرامز کے بطور اینڈ ٹرم اسیسمنٹ امتحان لینے کا فیصلہ کیا۔ اس طریقہء امتحان کے مطابق روائتی طور پر جیسے مشقوں کے سوال نامے بھیجے جاتے ہیں.
طلباء کو سوال نامے بیجھے گئے جن کے جوابات طلباء کو سوچ سمجھ کر اپنے الفاظ میں لکھنے کی تاکید کی گئی اور ساتھ ہی کسی بھی کتاب یا طالب علم کی نقل نہ کرنے اور اپنے ہاتھ سے لکھنے کی سختی سے تاکید کی گئی تاکہ طلباء کی کارکردگی کی درست طرح سے جانچ کی جا سکے۔ امتحان لینے کا یہ مخصوص طریقہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں پہلی بار بروئے کار لایا گیا جس کے نتائج کا اعلان کل بروز جمعہ کیا گیا ۔
اس نتیجے میں کئی طلباء کامیاب ہوئے لیکن بہت سے طلباء کو شدید ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ پہلے سے ہی نتائج دینے کی تاریخ مقرر کر دی گئی تھی جو کم دورانیے پر مشتمل تھا تو جلدی جلدی میں تکنیکی بنیادوں پر کئی غلطیاں سرزد ہوئیں۔ طلباء کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ۔ نتائج کا اعلان ہوتے ہی سوشل میڈیا پر ایک ہیجان برپا ہو گیا۔ اکثر طلباء کو کسی نہ کسی مضمون میں ناکامی کا سامنا ہوا جبکہ طلباء کا کہنا ہے کہ انہوں نے محنت کر کے پرچہ جات حل کیے اور وقت پر متعلقہ ادارے کو ارسال کر دیے ۔
سوشل میڈیا پر ادارے کی جانب سے ایک پیغام بھی گردش کر رہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نتائج میں تکنیکی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں جو جلد ہی دور کر دی جائیں گی۔ طلباء پریشان نہ ہوں۔ یہ پیغام کس حد تک سچائی پر مبنی ہے ،اس کی کیا حقیقت ہے،اس سے ہٹ کر طلباء کے پاس اس مضمون کا پرچہ ری چیک کروانے کا آپشن موجود ہے۔ ادارے کی ویب سائٹ پر درخواست موجود ہے جو بھر کر متعلقہ دستاویزات کے ساتھ ادارے کو ارسال کی جا سکتی ہے ۔ ادارہ اس درخواست لر عمل درآمد کرنے کا مجاز ہے ۔اگر کسی طالب علم کے نمبر غلط لگے یا سرے سے لگائے ہی نہیں گئے تھے ، ادارہ دوبارہ چیک کرنے اور غلطیاں دور کرنے کا پابند ہو گا۔
0 تبصرے