جب کسی خاندان کا سربراہ دنیا سے چلا جائے تو اس خاندان کے افراد خود کو لاوارث اور بے سہارا سمجھتے ہیں .اگر کسی مکان کی چھت گر جائے تو تمام گردوغبار ،بارش کا پانی اسمیں پڑتا ہے تو وہ تھوڑے ہی عرصہ میں کھنڈر کا نقشہ پیش کرنا شروع کر دیتا ہے.
یہ خاندان اور مکان اس لئے لاوارث ہو جاتے ہیں کہ ان کا کوئی سربراہ،مالی،خیال رکھنے والا رکھوالا نہیں ہوتا ،بالکل یہی حالت اس وقت امت مسلمہ مرحومہ کی ہے ،اﷲ کے حکم اور رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مطابق اس کا سربراہ ،امیر،خلیفہ ہی کوئی نہیں جو ان کے دکھوں،غموں،مصیبتوں کا مداوا کرے اور ان کے زخموں پر مرہم پٹی رکھے۔ ان پر ظلم وجبر کرنے والوں کو ان ہی کے انداز میں جواب دے کہ تم کرہ ٔ ارض کے مسلمانوں پر ظلم کیوں ڈھا رہے ہو ؟اب تمہارے اس جرم کا جواب مسلم دنیا کی واحد طاقتور آرمی دے گی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کا واقعہ ہے کہ رومی مسلمانوں سے شکست خردہ ہوکر حرقس کے دربار میں مدد کیلیے حاضر ہوۓ تو حرقس نے پوچھا " کیا وجہ ہے تم لوگ تعداد میں بھی زیادہ ہو اور تلواریں بھی تمہارے پاس زیادہ ہیں اسکے باوجود بھی تم شکست کھا جاتے ہو" ؟
دربار میں موجود سارے رومی خاموش ہوگئے انکے چہروں کے اوپر ندامت ظاہر ہونے لگی ان میں موجود ایک عمر رسیدہ رومی کھڑا ہوا اور بولا میں بتاتا ہوں ہم شکست کیوں کھا جاتے ہیں اور مسلمانوں کو کیوں فتح ہوتی ہے اسکی وجہ یہ ہے ہم لوگ جھوٹ بولتے ہیں ہمارے اخلاق اچھے نہیں ہیں ہم شراب کی محفلیں سجاتے ہیں ہم غریبوں کے اوپر ظلم کرتے ہیں ہم ان کی زمینوں پہ قبضہ کرتے ہیں ہم عورتوں کو شہوت کیلیے رات گئے استعمال کرتے ہیں ہم انصاف نہیں کرتے ہم مال و عزت کی حفاظت نہیں کرتے اس لیے ہمارے مقدر میں شکست ہی شکست ہے ۔
جب کہ مسلمانوں کے خلیفہ عمر بن خطابؓ اپنی رعایا کے ساتھ انصاف کرتے ہیں وہ جھوٹ بولنے سے منع کرتے ہیں ان کے اخلاق ہم سے اچھے ہیں وہ غریبوں کا مال نہیں کھاتے وہ عیاش پرست نہیں ہیں ۔
قربان جاؤں خلافتِ راشدہ کے حکمرانوں پر جن کی تعریف رومی کرنے پہ مجبور ہوجاتے تھے اس لیے اس وقت مسلمانوں کا عروج تھا کہ ان کے اندر وہ خصوصیات تھیں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو عزت سے نوازا تھا
آج مسلمانوں کے زوال کی بڑی وجہ یہی ہے کہ آج وہ سب رومیوں والی بدکاریاں ہم مسلمانوں میں موجود ہیں اور پوری دنیا میں رسوا و نادم ہیں یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ ہم نے تعلیمات نبوی،تعلیمات قرآنی کو پس پشت ڈال دیا ہے۔مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر مجھے یہاں ایک شعر یاد آ رہا ہے
درس قرآں گر ہم نے نا بھلایا ہوتا
یہ زمانہ نا زمانے نے دکھایا ہوتا
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوۓ تارکِ قرآں ہوکر!!
یہ شعر میں نے اپنے ایک اور کالم میں بھی لکھا تھا جس کا ٹائیٹل غفلت تھا۔ آج امت مسلمہ ایک پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری عالم اسلام میں ظلم سہہ رہی ہے۔میں پوچھنا چاہوں گا تمام امت مسلمہ کے سربراہان سے کہ اور قوموں پر ظلم کیوں نہیں ہوتے؟ کیا صرف مسلمان ہی ہیں جو ظلم سہتے رہیں گیں؟ کیا یہی قوم ہی مظلومیت کا شکار بنی رہے گی؟
آخر کیوں اور کب تک ایسا چلتا رہے گا؟
ہمارے سربراہان زندہ ہیں اور ہمارا مکان بھی ابھی اپنی حالت میں سہی ہے پھر کیوں اس کو لاوارث سمجھا جا رہا ہے۔خدارا میری تمام امت مسلمہ سے اور ان کے سربراہان سے التماس ہے کہ مسلمانوں کو ان کے حقوق دیے جائیں۔کب تک ہمارے مسلمان بھائی کشمیر،فلسطین،ایران،عراق و دیگر ممالک میں مظلوم بنے رہے گیں کافروں کے ظلم و ستم کو برداشت کرتے رہیں گیں کیا ان کا کوئی وارث نہیں ہے؟ آپ سربراہان تو ابھی زندہ ہیں کیوں ان کو ظلم سے کوئی بچانے والا نہیں،ان کا قصور کیا ہے؟ قصور ان کا صرف یہی ہے کہ وہ مسلمان ہیں؟
میں تمام سربراہان عالم اسلام سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ مسلمانوں کو ظلم کا شکار بننے سے روکا جائے۔اللہ رب العزت ہم سب کی عزتوں کا حامی و ناصر ہو اللہ ہم کو اپنے مسلمان بھائیوں کیلیئے کچھ اچھا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
0 تبصرے