نومبر کی ایک سرد شب بارش کے قطروں کی ٹپ ٹپ میں کہیں دور سے کسی کتے کے سردی سے بلکنے کی آواز آرہی تھی تو میرے دل میں خیال آیا کہ ہم کیوں نہ ان کتوں اور بلیون کی خاطر کوئی ایسا انتظام کریں



 کہ انھیں سردیوں کی بھیگی راتیں یوں کھلے آسمان نیچے ناگزارنی پڑیں۔آخر یہ بیچارے کس طرح اتنی سرد راتیں بسر کرتے ہوں گے۔ تب اپنے گرم بستر میں لیٹے خیالوں کی دنیا میں کچھ یوں کھو گیا کہ کس طرح میں ایک گرم کمرے بیٹھ کر ایک کتے کے لیے سوچ رہاہوں وہیں دوسری طرف میری اپنی نسل کا کہنے کے لیے خدا کا نائب حضرتِ انسان بھی یہ سرد شب کسی چھابڑی کے نیچے یا کسی دیوار کی اوٹ میں کھلے آسمان تلے گزار رہا ہوگا۔ 

کیونکہ ہمارے خطے میں بے گھر لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔مجھے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ انسان دہلی،لاہور،پشاور،ڈھاکہ،چٹا گنگ،بمبئی یا پھر بھوپال کی کسی سڑک پر ہے مجھے صرف اس چیز سے سروکار ہے کہ وہ یہ ٹھٹھر تی رات کھلے آسمان کے نیچے گزار رہا ہے کیونکہ میں انسانیت پرست ہوں۔ آخر کیوں سابقہ برِصغیر کی یہ عظیم ریاستیں اپنے شہریوں کو بنیادی سہولتیں دینے میں ناکام ہیں انھیں بس آزادی لفظ سے پیار تھا اور شائد یہ سمجھ بیٹھے کہ ہم آزاد ہو جائیں گے تو ہماری اقوام کی تمام مسئل حل ہو جائیں گے۔ ریاست تو ماں ہوتی ہے اپنے بچوں کو ہر آہ سے بچاتی ہے لیکن ان ریاستوں نے تو اپنی عوم (اولاد)کو آہ و زاری پر مجبور کر رکھا ہے۔ یہ کیسی مائیں ہیں جو اپنی اولاد کو تڑپا رہی ہیں کیا یہ نہیں جانتی کہ اگر اولاد پر زیادہ سختی کی جائے تو پھر اولاد نافرمان اور باغی ہوجاتی ہے۔ اور پھر ایسی مائیں دنیا کے سامنے ایک عبرت بن کر رہ جاتی ہیں۔ شاید یہ ریاستیں وقت کی چکی میں پسنا چاہتی ہیں۔ لیکن ایک سوال ہے کہ آخر ان ریاستوں کو بہتری کی طرف کون لیکر جائے گا۔تو اس کا سادہ سا سوال ہے کہ اپنے اندر سے کچرے کو نکال کر ہم میں سے ہر شخص ایک قابل ترشا ہوا ہیرا ہے۔ 

لیکن ہم میں گند اتنا بھر دیا گیا ہے کہ ہم کچھ مختلف سوچ ہی نہیں سکتے۔ بہر حال مادہ اپنی رفتار سے حرکت میں ہے وہ کسی کے لیے نہیں رکے یا تو ہم وقت سے ساتھ چلیں گے یا پھر وقت ہمیں کچل کر آگے نکل جائے گا۔ ابھی میں انہی خیالوں میں گم تھا کہ بارش کی تیز ہونے کے ساتھ کتے کے بلکنے کی زور دار آواز آئی جس کی وجہ سے میں اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آگیا ابھی میں بس یہ سوچ رہا تھا کہ ہمارا کیا ہوگا ہم خدا کو کیا منہ دکھائیں گے۔تبھی میں اپنے گرم بستر میں نیند کی آغوش میں پہنچ چکا تھا